مختصر تجزیہ
اٹھارویں ویں ترمیم کے بعد صوبائی اور وفاقی انتظامی وقانونی اختیارات کوآئین کے شیڈول 4کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دیا گیاہے۔ اس بندوبست میں صوبائی اختیارات کو وفاقی اور کونسل آف کامن انٹرسٹس کے اختیارات سے بالکل علیحدہ کردیا گیا ہے۔ نتیج تاً صوبائی اور وفاقی اختیارات کی ایگزیکٹو ، لیجسلیٹو اور فنانشل اتھارٹی علیحدہ ہوگئی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر خالصتاً صوبائی معاملہ ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی عملداری کے لیے پولیس اسٹیب کا قیام صوبے کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کا اختیار ہے۔ پولیس کی اسٹیب خالصتاً صوبائی اختیار ہے جبکہ آرٹیکل142، 2 بی کے مطابق فوجداری قانون، ضابطہ اور شہادت پر صرف قانون سازی کی حد تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یکساں اختیارات ہیں۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ142، 2 بی کا تعلق کسی لحاظ سے بھی پولیس اسٹیب سے نہیں ہے۔ اس لیے پولیس کو صرف صوبے ہی قائم کرسکتے ہیں اور وفاقی پولیس پی ایس پی کی صوبوں میں تعیناتی وفاقی آئین کے صریحاً خلاف ہے۔
آئین کے مطابق کانسٹیبل سے لے کر آئی جی تک تمام پوسٹس پر صوبائی ، ایگزیکٹو ، لیجسلیٹو اور فنانشل اتھارٹی قائم ہے۔ اس لیے صوبائی پولیس سروس کا قیام امن و امان ، پولیس ریفارمز، فیڈرالزم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ری پبلک پالیسی کی ریسرچ کے مطابق جب تک صوبے صوبائی پولیس سروس کا قیام عمل میں نہیں لاتے ،پولیس ریفارمز محض دکھاوا ہی رہے گی۔ اس لیے ری پبلک پالیسی (تھنک ٹینک) کی یہ سفارشات ہیں کہ پولیس ریفارمز کے فنکشنز کو بنیادی حقوق، سپیشلائزیشن اور عوامی خدمت کے تحت قائم کیا جائے۔
جبکہ پولیس فورس کے قیام کو صوبائی پولیس سروس بناکر عملداری کے لیے نافذ کیا جائے۔جب تک آئین کی فیڈرل سکیم کے تحت پولیس سروس کا قیام عمل میں نہیں آتا پاکستان میں فیڈرلزم اور پولیس ڈیلیوری کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔