پاکستان میں بارہ کروڑ سترہ لاکھ سے زائد ووٹرز ہیں۔ ٹویٹر صارفین کی تعداد پانچ ملین کے قریب ہے جو کہ تقریباً چار فیصد ہے۔ ( ضروری نہیں کہ تمام ووٹرز بھی ہوں ، پھر ایک سے زائد اکاؤنٹس بھی چلائے جا رہے ہیں )
اس لیے ٹویٹر پول یا سوشل میڈیا سروے ( جو کہ مخصوص کلاس کا نمائندہ ہوتا ہے ) کا ٹرینڈ حلقہ جاتی سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور یوٹیوب وغیرہ نے سیاسی رائے ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم حلقہ جاتی سیاست کی بنیادی ساخت پر کام کیے بغیر پارلیمانی نظام کا پاکستانی پس نظر میں الیکشن میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔
ٹک ٹاک نے دیہاتوں تک سیاسی پیغام پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی وابستگیوں کی نئی تحاریک نے جنم لیا ہے۔ تاہم ان تحاریک کو منظم کیے بغیر مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ سوشل میڈیا نے سیاست کو نئے زاویے دیے ہیں اور روایتی سیاسی شطرنج کی بساط کو لپیٹ دیا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا کا استعمال حلقہ جاتی ساختوں کے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو حلقہ جاتی سیاست پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ سوشل میڈیا ٹرینڈز اہم ہیں، البتہ حلقہ جاتی ٹرینڈز ذیادہ اہم ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت کی وجہ سے صدارتی طرز کے سروے ثانوی اہمیت کے حامل ہیں۔ بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کو ہر حلقے میں منظم ہونا چاہیے اور امیدواران اور سیاست کے فیصلے حلقوں کی سیاست کو مدنظر رکھ کر کرنے چاہیں ۔
ریپبلک پالیسی بارہا سیاسی جماعتوں اور سیاسی سپورٹرز کو گوش گزار کرتی چلی آئی ہے کہ حلقہ جاتی سروے ہی بنیادی سروے ہے، لہذا مجموعی مقبولیت یا قبولیت کے سیاسی سروے ذیادہ مستند نہیں، اس لیے ہر حلقے پر اس حلقے کے بندوبست اور خدوخال کے مطابق توجہ دیں۔
اس لیے ریپبلک پالیسی نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں حلقہ جاتی سروے کیے تاکہ سیاسی جماعتوں اور سپورٹرز کو بنیادی معلومات فراہم کی جا سکیں جسکی بنیاد پر وہ فیصلہ سازی اور حکمت عملی طے کر سکیں۔ پاکستان میں سروے کمپنیز کو بھی حلقہ جاتی سروے کرنے چاہیں تاکہ پارلیمانی نظام کی بنیادی ساخت پر معلومات اخذ کی جا سکیں اور متعلقہ فیصلے کیے جا سکیں۔
آخر میں ، آپکے خیال میں کونسی پارٹی اور لیڈر مقبول ترین ہیں؟
اسکا جواب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں پارٹی یا لیڈر مجموعی طور پر کتنے فیصد مقبول ہیں بلکہ جواب یہ ہونا چاہئے کہ جماعت اور لیڈر اس لیے مقبول ہیں کہ وہ ذیادہ حلقے جیت رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 266 ہے۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت 134نشستیں جیت رہی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ وہ پچاس فیصد مقبول ہے۔ مقبولیت اجتماعی مجموعی ووٹرز کی بجائے صرف اسی حلقہ کے ووٹرز کے تناسب سے ہی جانچنا مقبولیت کی جامع کسوٹی ہے ۔
ٹیم ریپبلک پالیسی