مبشر ندیم
گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا کے خطے میں جو بڑے سیاسی اور سماجی ہلچل دیکھنے کو ملے، ان کا مرکز و محور زیادہ تر نوجوان نسل رہی ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک میں ہونے والے حالیہ انقلابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب حکمران طبقہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتتا ہے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے تو سب سے پہلے نوجوان ہی میدان میں آتے ہیں۔ یہ نوجوان کسی بھی ملک کی آبادی کا سب سے متحرک اور حساس طبقہ ہوتے ہیں۔ ان کے اندر توانائی، امید اور جوش پایا جاتا ہے، لیکن جب یہ توانائی اور جوش مایوسی میں بدلتا ہے تو یہی طبقہ سب سے بڑی مزاحمتی طاقت بن جاتا ہے۔
سری لنکا میں 2022 کے دوران مہنگائی، ایندھن کی قلت اور بدعنوان حکمران طبقے کے خلاف جو عوامی تحریک اٹھی، اس کی قیادت نوجوانوں نے کی۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی اشرافیہ کے خلاف نعرے بلند کیے بلکہ صدارتی محل پر دھاوا بول کر عملی طور پر تبدیلی کی بنیاد ڈال دی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نوجوان جب ایک واضح مقصد کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر ریاستی طاقت اور روایتی رکاوٹیں زیادہ دیر ان کا راستہ نہیں روک سکتیں۔
اسی طرح 2024 میں بنگلہ دیش میں بھی یہی منظر سامنے آیا۔ روزگار کی کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عدم مساوات نے نوجوانوں کو مشتعل کیا۔ انہوں نے احتجاجی تحریکوں کو منظم کیا، اپنے مطالبات کو زور دار انداز میں پیش کیا اور بالآخر حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ بنگلہ دیش کا یہ تجربہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ نوجوان صرف احتجاج نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر تبدیلی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اب 2025 میں نیپال میں بھی سیاسی و سماجی ارتعاش نے جنم لیا ہے۔ وہاں کے نوجوان طبقے نے حکمران اشرافیہ کی بدعنوانیوں اور شاہانہ طرزِ زندگی کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے نزدیک یہ ناقابلِ قبول تھا کہ ایک طرف عوام غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہوں اور دوسری طرف حکمران اپنی عیاشیوں اور طاقت کے کھیل میں مصروف ہوں۔ نیپال کے اس منظرنامے نے ایک بار پھر یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ نوجوان نسل کی بے چینی کو نظرانداز کرنا کسی بھی ریاست کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ تمام مثالیں پاکستان کے لیے محض مشاہدے کا سامان نہیں بلکہ سنجیدہ سبق ہیں۔ پاکستان بھی ان مسائل سے دوچار ہے جنہوں نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں سیاسی زلزلے برپا کیے۔ یہاں بھی مہنگائی عروج پر ہے، بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، متوسط اور غریب طبقہ دباؤ کا شکار ہے اور حکمران اشرافیہ بدستور عیش و عشرت میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ یہ حالات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان میں بھی سماجی و سیاسی بے چینی کسی بڑے بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کے خواب، ان کی امنگیں اور ان کی توانائی ملک کا اصل سرمایہ ہیں۔ لیکن جب ان نوجوانوں کو تعلیم کے بعد روزگار نہ ملے، جب انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں دشواری پیش آئے اور جب انہیں سیاست اور فیصلہ سازی کے عمل سے الگ رکھا جائے تو وہ مایوسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ مایوسی رفتہ رفتہ غصے اور پھر احتجاج میں تبدیل ہوتی ہے۔ یہی کیفیت سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں دیکھی گئی اور یہی کیفیت پاکستان میں بھی پیدا ہو سکتی ہے اگر اس پر توجہ نہ دی گئی۔
پاکستان کے اداروں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔
ریاستی اداروں کی ذمہ داری صرف حفاظت اور قانون پر عمل کرانے تک محدود نہیں بلکہ ان کا بنیادی کردار معاشرتی استحکام کو یقینی بنانا بھی ہے۔
اگر عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد کا رشتہ کمزور ہو جائے تو پھر کوئی طاقت اس خلا کو پُر نہیں کر سکتی۔ اس اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ادارے شفافیت اور غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔ احتساب سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے، قانون کی گرفت صرف کمزور طبقے تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ طاقتور اشرافیہ کو بھی جواب دہ بنانا ناگزیر ہے۔
مزید برآں، پاکستان کی سیاست میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے، ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ یہ ملک ان کا ہے اور ان کے مستقبل کے خواب یہاں ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کو مستقل طور پر نظرانداز کیا گیا تو وہ اپنی صلاحیتیں یا تو بیرونِ ملک لے جائیں گے یا پھر ملک کے اندر ہی مزاحمتی قوت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ دونوں صورتیں پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں۔
معاشی اصلاحات اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ حکومت کو ایسی پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی جو صرف اعداد و شمار کی حد تک نہ ہوں بلکہ عام آدمی کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لائیں۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، صنعتوں کو سہارا دینا، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور چھوٹے کاروباروں کو سہولتیں فراہم کرنا وہ اقدامات ہیں جو نوجوانوں کو امید فراہم کر سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ پاکستان کو ایک قوم کی حیثیت سے سوچنا ہوگا۔ ہمیں محض وقتی سیاسی اختلافات یا ذاتی مفادات میں الجھنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو مایوسی سے نکال کر اعتماد اور یقین دلایا تو یہی نسل ملک کو ترقی کی راہ پر لے جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم نے ان کے مسائل کو مسلسل نظرانداز کیا تو ممکن ہے کہ وہ بھی سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کے نوجوانوں کی طرح تبدیلی کے لیے ایسا راستہ اختیار کریں جو ہمارے نظام کو ہلا کر رکھ دے۔
یہ وقت پاکستان کے لیے ایک وارننگ ہے۔ ہمارے اداروں اور حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ نوجوانوں کو صرف نعرے یا وعدوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں حقیقی مواقع، انصاف اور شفافیت چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔