ادارتی تجزیہ
کسی بھی معاشرے میں جہاں سیاست، سماجی اقدار، انسانی حقوق اور فکری آزادی کو عزت دی جاتی ہے، ریاست کا کردار محض ایک محافظ یا نگران تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ اپنے عوام کی ضامن اور نمائندہ بن جاتی ہے۔ ریاستی اختیار، جسے عموماً ’’ریاست کی رِٹ‘‘ کہا جاتا ہے، اصل میں طاقت یا خوف کے ذریعے قانون نافذ کرنے کا نام نہیں، بلکہ ایسا نظام قائم کرنے کا عمل ہے جس میں شہری خود کو محفوظ، باوقار اور شامل سمجھیں۔
ریاست کی رِٹ اُس وقت حقیقی معنی اختیار کرتی ہے جب وہ اپنے دائرہ اختیار میں موجود تمام سماجی، نسلی اور ثقافتی گروہوں کی شناخت، حقوق اور ضروریات کو تسلیم کرے۔ پاکستان جیسی وفاقی، کثیرالقومی اور کثیرالثقافتی ریاست کے لیے یہ شمولیت نہایت ضروری ہے۔ ایک ایسی ریاست جو صرف مرکزیت اور جبر پر انحصار کرے، وقتی طور پر نظم و ضبط تو قائم کر سکتی ہے لیکن پائیدار اعتماد یا جائز حیثیت حاصل نہیں کر سکتی۔ اس طرح کی حکمرانی خوف پیدا کرتی ہے، اعتماد نہیں۔
ریاست کی رِٹ اُس وقت کمزور ہو جاتی ہے جب شہری اسے اپنے نمائندے کے بجائے ایک اجنبی طاقت کے طور پر دیکھنا شروع کر دیں۔ جب عوام خود کو سیاسی طور پر الگ تھلگ، سماجی طور پر نظر انداز، یا معاشی طور پر محروم محسوس کرتے ہیں، تو وہ بتدریج نظام سے کٹ جاتے ہیں، اور یہ عمل حکمرانی کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ریاستی رِٹ محض علامتی رہ جاتی ہے اور حکمرانی صرف رسمی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اس مسئلے کا حل ریاست کے کردار کو از سرِ نو متعین کرنے میں ہے—طاقت کے مرکز سے بدل کر ایک سننے، سمجھنے اور جوڑنے والا ادارہ بننے میں۔ ایک مضبوط ریاست وہی ہے جو عوام کے خواب، شکایات اور امنگوں کو اپنی پالیسیوں اور فیصلوں کا حصہ بنائے۔ انصاف، شفافیت، شمولیت اور عوامی اعتماد ہی پائیدار ریاستی رِٹ کے حقیقی ستون ہیں۔
خوف پر قائم رِٹ قابو تو پا سکتی ہے، مگر اعتماد اور انصاف پر قائم رِٹ قوم کو متحد کرتی ہے۔ صرف اسی بنیاد پر ایک پرامن، مربوط اور دیرپا ریاست قائم ہو سکتی ہے۔