تحریر : ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
وادی سون سکیسر کے رہنے والے مون سون پر ہر وقت جنون کی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ طویل عرصہ گزرا ،وہ سکون کے لفظ سے خود بھی نا آشنا ہے اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا ۔ مون سون کا اصل نام والدین اور قریبی عزیز بھول چکے ہیں۔وہ خود بھی اپنا اصل نام بھول چکا ہے۔ کل جب غیر معمولی بارش ہوئی تو حضرت احسن فرمانے لگے:-” اس بار تو مون سون ہمارے مون سون جیسا ہے۔ مون سون کم ہے اور جنون زیادہ۔سکون چھن گیا ہے ۔بارش ہوتی ہے تو رکنے کا نام نہیں لیتی۔ایک دوست بتا رہے تھےکہ اس سال پچھلے سال کی نسبت بیس فیصد سے چالیس فیصد تک زیادہ بارشیں ہونےکا امکان ہے ۔ پہلے تو غریب کے گھر کی دیوار گرتی تھی اور لوگ رستے بنا لیتے تھے اب کی بار پتہ نہیں کیا کیا گرے گا اور کیا کیا بنے گا؟ احسن صاحب با مسمیٰ ہیں۔غریبوں کے ہمدرد ہیں ۔اپنی ذاتی کمائی سے کئی افراد کو کچے گھروں سے نجات دلا چکے ہیں۔وہ ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔بڑے ذمیندار نہیں لیکن بڑے خود دار اور دیندار ہیں ۔ اپنے وقت کا ایک قابل ذکر حصہ سماجی بہبود پر صرف کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوستوں کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے۔ گروپ کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ اہل زر ، اہل ٹر ٹر ، اہل مر مر ، اہل خود کجھ نہ کر کا نہیں ، اہل دل حضرات کا گروپ ہے۔ کوئی بھی گروپ ممبر مروجہ معنوں میں امیر نہیں لیکن تمام لوگ باشعور ہیں۔ چند لوگ سرکاری ملازم ہیں تو چند پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کرتے ہیں ۔ انکی زندگی کا واحد مقصد معاشرتی بہتری کیلیے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے مگر سون نہیں ، جنون نہیں ، فون نہیں، خون نہیں فقط تحمل ، تدبر اور اسوہ حسنہ کی اتباع کر کے۔معاشرتی بہتری کے تمام راستے صراط مستقیم میں جا کر ضم ہو جاتے ہیں “۔ ہماری زندگی میں مون سون کی بہت اہمیت ہے۔ مون کی بھی اور سون کی بھی۔ جی ہاں مون وہی جسے ہم “چنداماموں” کہتے ہیں۔ جی ہاں وہی چندا ماموں جو دور کے تو ہیں مگر انتہائی نزدیک بھی ہیں۔ چندا ماموں سمندر میں مد و جزر لانے کے ماہر ہیں اور چندا خشکی پر رہنے والے غریب انسانوں کی زندگی میں مدو جزر لانے میں پی ایچ ڈی کر چکی ہے۔ سون کی اہمیت اب بڑھ گئی ہے ۔ ہمارے ہاں علاقائی زبانیں دن بدن متروک ہوتی جا رہی ہیں ۔ اب تو چھوٹے شہروں میں بھی بڑے لوگ ہیں ، جن کے بچےبھی اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ اردو کا ایک لفظ نہیں بول سکتے ، وہ انگریزی بولتے ہیں ، سیفی صاحب ایسے ہی بچوں کی بدولت اپنے آپ کو رولتے ہیں ۔فرماتے ہیں:-” ہم نے اپنی علاقائی زبانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اب رفتہ رفتہ اردو بولنے کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔انگریزی زبان پر عبور ہونا اچھی بات ہے مگر اپنی مادری زبا ن کو اس قابل ہی نہ سمجھنا کہ وہ بولی جا سکتی ہے، انتہائی شر م ناک امر ہے۔چند لوگ اردو زبان کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک زبان، فقط ایک زبان نہیں ہوتی، ایک پوری تہذیب ہوتی ہے۔جو بچہ فقط انگریزی زبان جانتا ہے وہ انگریزی تہذیب کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور اپنے دین اور اپنی تہذیبی روایات سے آگاہ نہیں ہوپاتا۔ وہ سون کا مطلب جانتا ہے، مون کا مطلب جانتا ہے لیکن نہ مون سون کا مطلب سمجھتا ہے ، نہ سون سکیسر کا “۔محترمہ طیبہ سیف فرماتی ہیں :-” نئی نسل کی اکثریت فقط مادی لحاظ سے امیر ہونا چاہتی ہے۔دولت تو کئی طرح کی ہوتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے لوگ کردار کی دولت کو فراموش کرتے جا رہے ہیں ۔ان کا سپنا منی اور ڈھیر ساری منی ہے۔ منی آئے اور سون آئے ، مون آئے اور ویری سون آئے ، بس اک دن وہ جاگیں تو اک فون آئے کہ آپ کو امریکہ کی شہریت بھی مل گئی ہے اور آپ کی لاکھوں ڈولر کی لاٹری بھی نکل آئی ہے۔ہماری اکثریت کا فقط اتنا سا خواب ہے ، سماجی ترقی کیلیے اپنا آپ کھپانا انہیں لگتا عذاب ہے، ہر کوئی بنا پھرتا نواب ہے، پھر کہتے ہیں ملک کا حال خراب ہے ،خیال کوئی نہیں کرتا کون سا عمل باعث گناہ ہے اور کون سا باعث ثواب ہے، کاش ہمیں احساس ہو کہ انتہائی قریب یوم حساب ہے۔”محترمہ چندا فرماتی ہیں :-” لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد کسی نہ کسی جنون کا شکار ہو چکا ہے۔نئی نسل کو نت نئے موبائل کا جنون لاحق ہے تو پرانی نسل کے لوگوں کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ اعتدال پسندی ختم ہوتی جا رہی ہے۔سکون عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ اولاد کا مزاج بھی مون سون جیسا ہے۔سون سکیسر کے مون سون جیسا بھی اور ہواؤں ، بادلوں اور بارشوں کے سلسلے والے مون سون جیسا بھی۔اعتبار نہیں کیا جا سکتا کب کوئی کیا کر گزرے۔ ہمارے مون سون پر تو ہمیشہ سے جنون طاری رہا ہے تو اب کی بار ساون میں مون سون کا چلن ایسا ہے کہ کئی لوگوں کو جنون لاحق ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ہمارے ماضی کے شاعر کو دریا سے شکوہ تھا کہ دریا فقط اپنی طغیانیوں سے مطلب رکھتا ہے ، کسی کی کشتی سے دریا کو کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری نئی نسل دریا دل ہوتی مگر وہ دریا کی طرح فقط اپنی جولانیوں سے مطلب رکھتے ہیں ، بزرگوں کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔ ان کا حقیقی رشتہ فیس بک ، واٹس ایپ ، ایکس ، انسٹا گرام، ٹیلی گرام، آئی ایم او، سکائپ، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ وغیرہ وغیرہ سے ہے۔ غریب آدمی گرمی کا علاج ہمیشہ بارش کو سمجھتا ہے۔اے سی نہ اس کے گھر ملتا ہے اور نہ وہ اے سی کے دفتر جاتے ہوئے اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ہر طرح کا اے سی اسے خواب لگتا ہے ، خیال لگتا ہے ۔ایں خیال است ومحال است و جنوں است۔اگرچہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ الحمد اللہ ! اب ہمارے ہاں افسر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ، ٹرین وقت پر آتی ہے اور محکمہ موسمیات والے بھی بالکل ٹھیک پیش گوئی کرتے ہیں۔ ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام میں مکمل ہم آہنگی ہو۔ کمیونی کیشن گیپ نہ ہو۔ جدید دور کا سب سے اہم لفظ کو” آرڈی نیشن” ہے۔ یوسفی صاحب مدتوں پہلے فرما گئے تھے کہ ہمارے ہاں افواہوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اکثر سچ نکلتی ہیں لیکن یہ افواہ کی بات نہیں خیر خواہ کی بات ہے کہ اپنی حکومت پر اعتماد کریں۔ اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ کریں۔خود پر بھروسہ رکھیں ۔ حکومت کی تیاریاں مکمل ہیں۔ حکومت مون سون سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اگرچہ کوئی بھی فرد واحد اپنے مون سے سون تو کیا، بدیر بھی نہیں نمٹ سکتا۔ ابن انشاء کو بھی کہنا پڑا تھا کہ چودھویں کی رات کو ان کے مون کا چرچا رہا اور لوگوں نے ان سے بھی پوچھا مگر وہ ہنس دیے، وہ چپ رہے کیونکہ انہیں اپنے مون کا پردہ منظور تھا۔ انشا ءجی کا رویہ صائب تھا۔کتنے ہی مون پردے میں رہیں تو بہتر ہے۔اس بار اگرچہ مون سون کا ارادہ پردے چاک کرنے کا ہے لیکن ہمیں اپنا گریبان چاک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مون سون سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام میں مثالی تعاون درکار ہے۔ہمارے غیور عوام تو بیرونی طاقت کی مسلط کی ہوئی جنگ میں سرخرو ہوئے ہیں ۔ مون سون تو پھر ہر سال آتا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارا حامی و ناصر رہے۔
