Premium Content

صوبائی پولیس سروس کا قیام ہی دراصل پولیس ریفارمز ہیں

Print Friendly, PDF & Email

https://twitter.com/tahir_chheena مصنف: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ایس ایس پی ریٹائرڈ ہیں۔

پولیس سے مراد مختلف رینک کے افسران پر مشتمل ایک جماعت ہے جو آئین میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ملکی قوانین پر عملدارآمد کرانے کی ذمہ د ار ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم پولیس کے نظام میں اصلاحات پر بات کریں پولیس کے موجودہ نظام اور پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی یا غدر کے بعد تاج برطانیہ نے باضاطہ طورپر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1858ء کے تحت انڈیا کی حکومت حاصل کرلی تو نئے سرے سے پولیس کا بندوبست کرنے کے لیے 22مارچ1861ء ایکٹ نمبر5پولیس ایکٹ کے نام سے نیا قانون متعارف کروایا اور پولیس کی نگرانی کا حق صوبائی گورنمنٹ کو دیا۔ اگرچہ پولیس کی بنیادی ذمہ د اری جرائم کاانسداد اور تفتیش تھی مگر افسران کی درجہ بندی ”رائل آئرش پولیس“ کی طرز پر تھی جس کا بنیادی اور اہم کام آئر لینڈ کے آزادی پسندوں کی تحریک کو کچلنا تھا۔

پولیس کے نظام میں نکھار پیدا کرنے کے لیے پنجاب پولیس رولز1934 کے نام سے ایک دستاویز تیار کی گئی پاکستان کے قیام کے بعد پولیس ایکٹ 1861ء اور1934ء کے قواعدپولیس تمام پاکستان کے لیے پولیس کے بنیادی قوانین ٹھہرے۔

پولیس آرڈر 2002ء کے نفاذ کے ساتھ ہی پولیس ایکٹ 1861ء منسوخ ہوگیا مگر پنجاب پولیس رولز1934ء کو قائم رکھا گیا۔ پولیس رولز 1934ء کے باب 12اورباب13پولیس افسران کی سنیارٹی اور اگلے درجہ میں ترقی سے متعلقہ ہیں۔

قاعدہ12-1کے مطابق اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی تقرری کا اختیار سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے انڈیا جو کہ تاج برطانیہ کا نمائندہ تھا کے پاس تھا جبکہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تک ترقی اور تقرری کا اختیار صوبائی گورنمنٹ کے پاس تھا۔ ڈی ایس پی سے آگے ترقی کا کوئی طریقہ کار پولیس رولز میں تحریر نہ تھا۔ پولیس کے سینئر رینک کے افسران کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) سے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ (پی۔ایس۔پی) کے قیام اور تنظیم کو سمجھ لیا جائے۔ قیام پاکستان سے قبل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور بالا افسران پولیس براہ راست سیکرٹری آف اسٹیٹ کے ماتحت تھے۔ آزادی ہند ایکٹ1947ء میں ان پوسٹوں کو سیکرٹری آف اسٹیٹ کے کنٹرول سے آزاد کرکے موقع دیا گیا کہ ایسے افسران چاہیں تو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیں یا پھر انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ملک میں اپنی خدمات کو جاری رکھ سکتے ہیں اور اس طرح دونوں ملکوں کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنے آئین بنانے کے بعد اپنی ”سروسز“ بناسکیں۔ بدقسمتی سے پاکستان 1956ء تک اپنا کوئی آئین نہ بناسکا اور نظام حکومت یا تو عبوری آئین1947ء جو کہ انگریز کا بنایا ہوا تھا کے تحت چلتا رہا یا پھر حکومتی افسران کی خواہشات کے مطابق۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/police-nizam-ma-tabdeli/

آٹھ نومبر1950ء کو حکومت پاکستان نے لیٹر نمبرایف۔25/4/50  ای ایس ای ایس(ایس ای)کے ذریعہ ایک قرارداد شائع کی جس میں یہ ارادہ ظاہر کیا گیا تھا کہ حکومت،  پاکستان میں سول سروسز کا قیام چاہتی ہے۔ کس قانون یا اختیا رکے تحت ایسا ہوگا اس کا ذکر نہ تھا اسی قرارداد کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ (ہوم ڈویژن)نے بحوالہ نوٹی فکیشن نمبر10/1/50مورخہ11/3/1950پولیس سروس آف پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ اس سروس کے اہم نقاط ذیل تھے

  وفاقی پولیس سروس آف پاکستان میں ریکروٹمنٹ تمام پاکستان کی بنیاد پر بذریعہ پاکستان پبلک سروس کمیشن مرکزی حکومت کرے گی۔ (i)
  

   سروس کا ”کیڈر“ صوبہ کی بنیاد پر ہوگا اور ایک دفعہ آفسر کو جو صوبہ الاٹ کیا جائے گا وہ تمام سروس اُسی صوبہ میں گزارے گا۔ (ii)

  صوبائی پولیس افسران کا کوٹہ سروس میں 25فیصد مقرر کردیاگیا (iii)

چونکہ پولیس سروس آف پاکستان گریڈ17(اے ایس پی )سے شروع ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ صوبائی کیڈر ڈی ایس پی گریڈ17کا آفیسر جب اپنے عہدہ میں کنفرم ہوتا ہے تو وہ پی ایس پی میں شامل ہونے کا اہل ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/punjab-police-ma-taraqi-ka-nizam/

31-08-1950 اکتیس اگست 1950 کو پولیس سروس آف پاکستان (پروبیشنری سروس) رولز1950نافذ کیے گئے۔ یہ رولز صرف براہ راست پولیس سروس آف پاکستان میں بھرتی ہونے ولے افسران پر لاگو ہوتے تھے اور صوبائی سروس سے (پی ایس پی ) میں شامل ہونے والے افسران اِن رولز سے مبرا تھے۔

چھبیس نومبر اُنیس سو اُنہترکو پولیس سروس آف پاکستان (کمپوزیشن اینڈ کیڈر) رولز 1969کے نام سے نئے قواعد جاری کیے گئے۔ یہ رولز براہ راست پولیس سروس آف پاکستان میں شامل ہونے والے اور صوبائی پولیس سے پی ایس پی میں شامل ہونے والے افسران پر یکساں لاگو ہوتے تھے۔ ان رولز میں ”سروس“ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا گیا کہ سروس کا مطلب پولیس سروس آف پاکستان ہے جو کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی آرٹیکل 263کے تحت فیڈریشن اور صوبوں کے مابین مورخہ 27دسمبر1949ء کو ہونے والے معاہدہ کی رو سے فیڈریشن اور صوبوں کیلئے مشترکہ سروس ہوگی۔ یادرہے کہ آزادی ہند ایکٹ1947ء کے سیکشن 10کے ذریعے سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے انڈیا کی سروسز کو ختم کردیا گیا تھا اور یوں پولیس سروس بھی ختم ہوگئی تھی۔ ان رولز کی رو سے صوبائی افسران کا کوٹ پی ایس پی میں 25فیصد سے بڑھا کر 33فیصد تک کردیا گیا۔

حکومت پاکستان نے1972ء میں ایڈمنسٹریٹو ریفارم کمیٹی بنائی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی حکومت افسرشاہی کی خواہشوں کے برعکس اصلاحات کیلئے کی گئی سفارشات پر عمل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ بھٹو دور حکومت میں کی گئی ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کے اہم نقاط ذیل تھے۔

   سروس کیڈر کا خاتمہ (i)

  یونیفائیڈ نیشنل پے اسکیل کا قیام۔ (ii)

سول سروس آف پاکستان (سی ایس پی) کے لیے مخصوص پوسٹوں کا خاتمہ (iii)

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا قیام۔ (iv)

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/police-reforms-and-creation-of-provincial-police-service-pps/

ان سب سفارشات کی روشنی میں اسٹیب ڈویژن نے لیٹر نمبر1/1/73-اے آر سی مورخہ10-11-1973اور نوٹیفکیشن نمبرایس آر او .1530(1)73مورخہ 3/11/1973کے ذریعہ سروسز میں ہر قسم کا کوٹہ سسٹم ختم کردیا تھا۔ نیز نئے وفاقی سول سروس گروپ کے قیام کی بنیاد انہی اصلاحات کو بتایا جاتاہے۔ چنانچہ اسٹیب ڈویژن کے نوٹیفکیشن نمبر اوایم این او.3/2/75-ا آرسی مورخہ 31-05-1975 کی روسے پولیس گروپ کی تشکیل ہوئی اہم نقاط یہ تھے

    تمام پولیس کی آسامیاں گریڈ17اور بالایعنی اے ایس پی ،ایس پی ،ڈی آئی جی ، ایڈیشنل آئی جی اور آئی جی اس گروپ میں شامل ہونگی (i)

   یہ گروپ اسٹیب ڈویژن کے کنٹرول میں ہوگا۔ (ii)

  (iii)
گریڈ17میں اسٹنٹ سپرنٹندنٹ پولیس(اے ایس پی ) کی ریکروٹمنٹ حسب دستور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہوگی

(iv)
گریڈ18میں تقرری پولیس گروپ کے گریڈ17کے افسران اور صوبائی پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس(ڈی ایس پی ) میں سے رولز کے تابع کی جائے گی

اس طرح دفعہ اور5کے تحت یہ اصول طے کیا گیا کہ صوبائی پولیس کے افسران ڈی ایس پی رینک میں پولیس گروپ میں شامل ہوں گے۔

 ایس آر او1033(1)85کے ذریعہ پولیس گروپ کا نام تبدیل کرکے پولیس سروس آف پاکستان کردیا گیا نیزسروس کے نئے رولز نافذ کیے گئے۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں نظام میں تبدیلی کی کوشش کی گئی اور اس دوران پولیس آرڈر 2002ء کے نام سے پولیس کا نیاقانون بنایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002ء آرٹیکل 165پولیس میں ترقیوں کے لیے بورڈز اور کمیٹیوں کا تذکرہ کرتا ہے جو کہ ایس پی رینک میں ترقی تک ہے۔ اب ذرا غور کریں کہ پولیس گروپ کے فریم ورک کی دفعہ 5 کے مطابق ایس پی کی ترقی فیڈرل گورنمنٹ کرے گی جبکہ پولیس آرڈر 2002کے مطابق ایس پی کی ترقی کی سفارش آئی جی کی سربراہی میں قائم بورڈ کرے گا اور ترقی کا نوٹیفکیشن اتھارٹی(چیف منسٹر) کی منظوری سے کیاجائے گا۔ اس طرح یہ دونوں قوانین آپس میں متصادم ہیں مگر اس میں آسانی اٹھارہویں آئینی ترمیم نے کردی جب آئین سے کنکرنٹ لسٹ ختم کرکے پولیس کو خالصتاً صوبائی معاملہ مان لیا۔ چنانچہ پنجاب گورنمنٹ نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس پروموشن رولز منظور کرکے یہ مسئلہ حل کردیا مگر ان رولز میں ایس پی ترقی کا صوبائی کوٹہ 40فیصد تک مقرر کرکے 60فیصد آسامیاں عملی طورپر خالی چھوڑ دی تھیں۔نیز ایس پی گریڈ 18 سے آگے ایس ایس پی، ڈی آئی جی، ایدیشنل آئی جی ترقی کے لیے کوئی رولزنہ بنائے۔

یہ رولز چونکہ مختلف عدالتوں /سروسز ٹربیونل میں زیر بحث ہیں اس لیے ان پر مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ”یونیفارم فورس“ ہے۔ یہ بات وردی پہننے کی حد تک تو درست ہوسکتی ہے مگر عملی طورپر اے ایس آئی بھرتی ہونے والا کانسٹیبل بھرتی ہوکراے ایس آئی ترقیاب ہونے ولے کو کم تر سمجھتا ہے تو سب انسپکٹر بھرتی ہونے والا اے ایس آئی بھرتی ہونے والے کو حقیر جانتا ہے۔ انسپکٹر بھرتی ہونے والا خود کو اعلیٰ جانتا ہے تو اے ایس پی بھرتی ہونے والا خود کو اعلیٰ ترین اور باقی سب کو ہر لحاظ سے کم ترین گردانتا ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/myth-of-police-reforms/

قیام پاکستان سے لے کر آج تک پولیس ریفارمز کے لیے کمیشن /کمیٹیوں کی سفارشات پر نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کے تنظیمی ڈھانچہ کو آئین اور قانون کے تابع لانے کی بجائے پولیس کے فرائض، ذمہ داریاں اور روزمرہ کئے جانے والے کاموں کو بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے تنظیمی ڈھانچہ کو ازسر نو منظم کیاجائے، کیونکہ پولیس کی ”تنظیم“ اور پولیس کے ”فنکشنز“ دو مختلف چیزیں ہیں۔پولیس میں بھرتی انتہائی اعلیٰ معیار پر صرف ایک رینک میں کی جائے تو بہترین لوگ تربیت اور تجربہ کی بنیاد پر ترقی کرکے اگلے عہدوں میں پہنچ جائیں گے جبکہ نااہل لوگ نچلے عہدوں میں رہ جائیں گے اور کچھ عرصہ کے بعد بہترین لوگوں پر مشتمل پولیس جماعت قائم ہوجائے گی۔

پاکستان کے آئین کے شیڈول چار کے مطابق لاء اینڈ آرڈر صوبائی اختیار ہے۔ آئین کے آرٹیکل139کے تحت صوبائی حکومتوں نے رولز آف بزنس کے ذریعے ڈیپارٹمنٹس قائم کیے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کے مقاصد کے حصول کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹس بنائے گئے ہیں۔ ہوم ڈیپارٹمنٹس کے رولز آف بزنس کے تحت یہ صرف صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ صوبائی پولیس قائم کرے۔ آئینی طور پر یہ واضح ہے کہ پولیس سروس کا قیام اور کنٹرول صرف صوبائی ہوم ڈیپارٹمنٹ کا آئینی اختیار ہے اور وفاقی حکومت صوبائی پوسٹوں کی بنیاد پر کوئی بھی وفاقی یا آل پاکستان سروس قائم نہیں کرسکتی۔ وفاقی پولیس، فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پارٹ نمبر1پر قائم ہوگی اور آل پاکستان پولیس فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پارٹ2پر قائم کی جاسکتی ہے۔

پولیس ریفارمز کا بنیادی مقصد صوبائی پولیس سروس کا قیام ہونا چاہیے جس پر کبھی بحث نہیں ہوئی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بحث کیوں نہیں ہوتی؟ دراصل 1947سے لے کر اب تک جن کے خلاف ریفارمز ہونی چاہیے ان کو ہی یہ ٹاسک دیا جاتا ہے کہ وہ ریفارمز کریں۔ پاکستان میں پولیس ریفارمز نہ ہونے کی بنیادی وجہ صوبائی پوسٹوں پر وفاقی افسران پی ای پیز کی تعیناتی ہے اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وفاقی پی ایس پی پولیس افسران سے پولیس ریفارمز کی توقع بھی کی جاسکے۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دو ا لیتے ہیں

وفاقی پی ایس پی افسران بھلا کیسے ریفارمز کرسکتے ہیں، کیونکہ آئینی ریفارمز کی صورت میں سپاہی سے لے کر آئی جی پولیس کی تمام صوبائی پوسٹس پر صرف صوبائی پولیس قائم ہو سکتی ہے۔آئینی طورپروفاقی پی ایس پی افسران کی صوبوں میں تعیناتی ممکن نہیں۔ اس لیے صوبائی پولیس سروس کے قیام کے بغیر پولیس ریفارمز محض دھوکہ دہی ہے۔ سپاہی سے لے کے آئی جی کی تمام پوسٹس پر صرف صوبائی پولیس ہی تعینات ہوسکتی ہے ۔ اس لیے ریفارمز تھرڈ پارٹی/پرسن، ماہر اور غیر جانبدار پیشہ ور ماہرین سے کروائی جائیں۔ صوبائی پولیس سروس کا قیام ہی درحقیقت پولیس ریفارمز ہیں ۔

1 thought on “صوبائی پولیس سروس کا قیام ہی دراصل پولیس ریفارمز ہیں”

  1. It is a great article about police history. I do agree that the current problems and deprivation of provincial police officers’ promotions and lack of efficiency is caused by the interferences of federal management. 👍

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos