چینی بحران: مفادات کی سیاست نے عوام کو مہنگائی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا

[post-views]
[post-views]

طاہر مقصود

پاکستان میں چینی کی برآمد کے بعد اب 3 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کوئی حیرت انگیز قدم نہیں بلکہ اس پرانی اور آزمودہ پالیسی سوچ کی عکاسی ہے جہاں طاقتور کاروباری طبقوں کے مفادات کو عوامی مفاد پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جب چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تو ماہرین، صحافیوں اور ماہرینِ معیشت نے واضح طور پر خبردار کیا تھا کہ اس فیصلے سے ملکی منڈی میں قلت اور قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوگا، اور آج وہ تمام خدشات حقیقت بن چکے ہیں۔

پاکستان کی پالیسی سازی میں ایسے یو ٹرنز کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی گندم، کپاس اور چینی جیسے اہم اجناس کی پہلے برآمد اور پھر مہنگی درآمد کا تماشا دیکھنے کو ملا ہے۔ ان فیصلوں کا بوجھ نہ صرف قومی خزانے پر پڑتا ہے بلکہ عام آدمی کی جیب پر بھی۔ چینی کی حالیہ قیمت 200 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے، جو کہ پاکستان جیسے معاشی بحران کے شکار ملک میں متوسط اور غریب طبقے کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔

چینی مل مالکان پر پہلے ہی کارٹیل بنانے کا الزام ہے، اور مقابلہ کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ان پر جرمانے بھی عائد کیے جا چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان مالکان کو برآمد کی اجازت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر عوامی مفاد کو قربان کیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے کئی شوگر مل مالکان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود ہیں اور حکومت و اپوزیشن دونوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

اب جبکہ چینی کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں، تو حکومت نے درآمد کا سہارا لیا ہے تاکہ قیمتوں کو “مستحکم” کیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر درآمد کا فیصلہ عوام کے فائدے کے لیے ہے تو برآمد کی اجازت کن مفادات کی خاطر دی گئی تھی؟ اور جن افراد یا اداروں نے فائدہ اٹھایا، کیا اُن سے کوئی بازپرس کی جائے گی؟

چینی کی سرکاری طور پر متعین قیمت بھی 164 روپے فی کلو مقرر کی گئی، جو برآمد کی منظوری کے وقت طے کردہ قیمت سے 13 فیصد زیادہ ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ چینی کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ کے بجائے طاقتور طبقے کرتے ہیں، اور حکومت ان کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

یہ مسئلہ صرف چینی تک محدود نہیں۔ یہ پورے معاشی نظام کی کمزوری، بدانتظامی اور اقربا پروری کی علامت ہے۔ ہر حکومت، خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہو، جب بھی طاقتور طبقوں کے مفادات کے سامنے جھکتی ہے تو وہ دراصل ریاست کی اخلاقی حیثیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔

پاکستان کے عام شہری کے لیے چینی اب صرف مہنگی خوراک نہیں، بلکہ ایک ایسی تلخ علامت ہے جو یاد دلاتی ہے کہ ملک کا پالیسی ساز طبقہ کس قدر خودغرض اور عوامی مسائل سے لاتعلق ہو چکا ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت فوری اصلاحات کرے۔ سب سے پہلے پالیسی سازی میں مفادات کے تصادم کو ختم کرنا ہوگا۔ وہ افراد جو کاروباری مفادات رکھتے ہیں، انہیں متعلقہ پالیسیوں سے دور رکھا جائے۔ دوسرا، تمام تجارتی فیصلے شفاف ہوں، عوام کے سامنے لائے جائیں اور آزاد ادارے ان کی نگرانی کریں۔ تیسرا، مقابلہ کمیشن جیسے اداروں کو مکمل خودمختاری دی جائے تاکہ وہ کارٹیل بنانے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکیں۔

اگر ان اقدامات پر سنجیدگی سے عمل نہ کیا گیا تو چینی جیسی اشیاء پر عوامی استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، اور پاکستان کا متوسط و نچلا طبقہ مہنگائی، بے بسی اور ریاستی ناکامی کا شکار ہوتا رہے گا۔

چینی بحران صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، یہ ایک اخلاقی بحران بھی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ چینی کتنے روپے کی ہوگی، اصل سوال یہ ہے کہ عوامی مفاد کب تک ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھتا رہے گا؟ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور طبقے کی خادم ہے یا عوام کی محافظ۔ اس فیصلے سے ہی پاکستان کے معاشی اور سیاسی مستقبل کا تعین ہوگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos