شوگر مافیا: گنا سستا، چینی مہنگی: کسان بھی لُٹا، صارف بھی

[post-views]
[post-views]

پاکستان میں شوگر انڈسٹری اب ایک مکمل مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو محض ایک صنعتی شعبہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور معاشی نظام پر اپنی گرفت مضبوط کر چکی ہے۔ اس مافیا نے نہ صرف کسان کو نقصان پہنچایا بلکہ عام صارف کو بھی مہنگی چینی کے ذریعے مسلسل استحصال کا نشانہ بنایا۔ اس کی سب سے بڑی طاقت اس کا سیاسی اثر و رسوخ ہے، جہاں ہر بڑی جماعت کے رہنما براہ راست یا بالواسطہ طور پر شوگر ملز کے مالک یا شراکت دار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے، تو یا عدالتوں سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا جاتا ہے یا بیوروکریسی کو دباؤ میں لا کر کارروائی کو روک دیا جاتا ہے۔

شوگر مافیا کی منافع خوری کا اندازہ ان کے اپنے دیے گئے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کرشنگ سیزن میں ملز نے اوسطاً چار سو باون روپے فی من گنا خریدا اور چینی ایک سو پینتیس روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی۔ موجودہ سیزن میں جب حکومت نے گنے کی قیمت مقرر نہیں کی، تو ملز نے چار سو چھبیس روپے فی من میں گنا خریدا، لیکن چینی کی قیمت ایک سو چھہتر روپے فی کلو تک پہنچا دی۔ یعنی انہوں نے کسان سے سستا گنا خرید کر صارف کو مہنگی چینی فروخت کی۔ اگر چینی کی سالانہ پیداوار ستر لاکھ میٹرک ٹن ہے تو ایک روپے فی کلو اضافی منافع سات ارب روپے بنتا ہے، اور اکتالیس روپے کے اضافے سے حاصل ہونے والا ناجائز منافع دو سو ستاسی ارب روپے تک جا پہنچتا ہے۔

کسانوں کو صرف قیمتوں میں کمی کا سامنا نہیں بلکہ وزن میں کٹوتی، ادائیگی میں تاخیر، اور بلیک میلنگ جیسے مسائل بھی لاحق ہیں۔ ملز کسانوں کو وقت پر ادائیگی نہیں کرتیں، بعض اوقات مہینوں تک پیسے روکے رکھتی ہیں۔ دوسری طرف، ملز کی پیداوار کا بڑا حصہ آف دی بک یعنی بلیک میں ہوتا ہے، جس سے وہ ٹیکس چوری کرتی ہیں اور مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتیں مزید بڑھاتی ہیں۔

یہ صورتحال صرف معاشی بدحالی تک محدود نہیں بلکہ ایک ریاستی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو نہ قیمتوں میں ریلیف دے سکے، نہ کسان کو تحفظ فراہم کر سکے اور نہ ہی اداروں کو آزادانہ طور پر کاروائی کا اختیار دے، تو پھر مافیا کے سامنے ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مافیا کے خلاف کوئی موثر کارروائی ممکن ہے؟

اس کا جواب مثبت ہے، بشرطیکہ چند بنیادی اصلاحات کو سنجیدگی سے نافذ کیا جائے۔ سب سے پہلے تو گنے اور چینی کی قیمتوں کا ایک شفاف اور باقاعدہ فارمولہ تیار کیا جائے، جو نہ صرف کسان کو مناسب معاوضہ دے بلکہ صارف کو بھی مہنگائی سے بچا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چینی کی پیداوار، اسٹاک اور فروخت کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل نظام متعارف کروائے تاکہ ہر مرحلے پر شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of Republic Policy Think Tank

کسانوں کو بروقت ادائیگی کی ضمانت کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ اگر کوئی مل چودہ دن کے اندر ادائیگی نہ کرے تو اسے جرمانہ اور پیداوار کی بندش جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ عوامی عہدے دار یا منتخب نمائندے کسی بھی ریگولیٹڈ صنعت میں مالی مفاد نہ رکھ سکیں تاکہ پالیسی سازی میں مفادات کا تصادم نہ ہو۔

عدلیہ کو بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ عدالتوں کو ایسے مقدمات میں فوری فیصلے دینے چاہییں جہاں عوامی مفاد متاثر ہو رہا ہو، اور انہیں ایسے عبوری احکامات سے گریز کرنا چاہیے جو حکومتی کارروائی کو روک دیں۔ صرف قانونی پیچیدگیوں کو بنیاد بنا کر مافیا کو تحفظ دینا ریاستی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

سول سوسائٹی، کسان انجمنیں، میڈیا اور تھنک ٹین کس کو بھی اس مسئلے کو ترجیح دینا ہو گی۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف وقتی خبروں پر اکتفا نہ کرے بلکہ تحقیقاتی صحافت کے ذریعے اس مافیا کو بے نقاب کرے۔ کسان تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ منظم ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ شوگر ملز کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرے۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شوگر مافیا صرف ایک صنعت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ریاستی اختیار، معاشی انصاف اور جمہوری اقدار کا امتحان ہے۔ اگر ہم اس مافیا کے خلاف اجتماعی طور پر قدم نہ اٹھائیں تو نہ صرف کسان اور صارف مزید پس جائیں گے بلکہ ریاستی اداروں کی ساکھ بھی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کارٹل کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور ایک منصفانہ، شفاف اور عوام دوست معاشی نظام کی بنیاد رکھی جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو اقتصادی خود مختاری، زرعی استحکام اور جمہوری پائیداری کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos