تحریر: ظفر اقبال
حکومت اہم شعبوں میں ترقی پسند پالیسی اصلاحات پر توجہ دے کر معیشت اور عوام کے لیے بجٹ کو بامعنی بنا سکتی ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ قانونی تنازعات میں ملوث تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ طویل مدتی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا اور پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا۔
دوم، حکومت کو ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنانے اور تمام شعبوں میں ٹیکس کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ممکنہ ٹیکس دہندگان، خاص طور پر زیادہ آمدنی والے افراد کو ہدف بنانا چاہیے۔
سوم، زرعی شعبے کے بحران سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ کسانوں کی مدد کرنا اور زراعت کو زندہ کرنا یہ درآمدات پر خوراک کا انحصار کم کر سکتا ہے اور ملک کی تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو بڑھا سکتا ہے۔
آخر میں، غیر منفعتی تنظیموں کے کام کی راہ میں حائل ریگولیٹری رکاوٹوں کو دور کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر معاشی ایمرجنسی کے دوران۔ یہ تنظیمیں ملک کی سب سے زیادہ کمزور آبادیوں کو مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ان اصلاحات کو سالانہ بجٹ میں شامل کر کے حکومت اسے ایک تبدیلی کا آلہ بنا سکتی ہے جو معیشت اور عوام کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔
کئی سالوں کے دوران، پاکستان نے سالانہ بجٹوں کا ایک سلسلہ دیکھا ہے جو اہم تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اپنے بجٹ کے وعدوں کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ مسلسل اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو حل کرنے کی کوشش میں اکثر مضبوط ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے ۔ اس پیٹرن نے پاکستان کے مالیات کو کمزور کیا ہے، جس کے نتیجے میں بار بار آنے والے مالیاتی خسارے، کنٹرول سے باہر تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، اور بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی قرضے ہیں۔ جیسا کہ ملک آئی ایم ایف کے ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے، توقع ہے کہ آنے والا بجٹ آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی گئی سخت شرائط سے تشکیل پائے گا۔ تاہم، جب کہ آئی ایم ایف کچھ ذمہ داری اٹھاتا ہے، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ہم، بطور شہری اور پالیسی ساز، ان ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے میں، آبادی پر مالی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان کے معاشی منظرنامے میں سب سے واضح تضادات میں سے ایک جامع ٹیکس نیٹ کی کمی ہے، جس میں فی الحال صرف دو فیصد آبادی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ [ٹیکس نیٹ کی کمی کے نتائج] مسئلے کو بڑھاتے ہیں۔ یہ دائمی مسئلہ معاشی پالیسیوں کی ناکامی اور کلیدی شعبوں میں اصلاحات کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔
سب سے پہلے، پاکستان کی معاشی رفتار قانونی تنازعات میں ملوث تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنا کر صرف مضبوط قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی بہتر ہو سکتی ہے ۔ یہ طویل مدتی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔
دوم، ممکنہ ٹیکس دہندگان کو نشانہ بنانا، خاص طور پر زیادہ آمدنی والے، ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے اور تمام شعبوں میں ٹیکس کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے بہت اہم ہے۔
تیسرا، زرعی شعبے کا بحران، جس کی مثال حالیہ گندم کی کٹائی میں ناکامی سے ملتی ہے، فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ درآمدات پر خوراک کے انحصار کو کم کرنے اور ملک کی تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو بڑھانے کے لیے کسانوں کی مدد اور زراعت کو زندہ کرنا ضروری ہے۔
آخر میں، غیر منفعتی تنظیموں کے کام کی راہ میں حائل ریگولیٹری رکاوٹوں کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے، خاص طور پر معاشی ایمرجنسی کے دوران۔ یہ تنظیمیں [موجودہ معاشی ایمرجنسی میں غیر منافع بخش تنظیموں کا مخصوص کردار] میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور انہیں بااختیار بنانا پاکستان کی سب سے زیادہ کمزور آبادیوں کو اہم مدد فراہم کر سکتا ہے۔
چونکہ پاکستان کو اپنی تاریخ کی سب سے اہم ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے، اس لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ سالانہ بجٹ محض ایک عددی مشق نہ ہو بلکہ تبدیلی کی پالیسی اصلاحات کو نافذ کرنے کا ایک ذریعہ ہو، اور ہمیں ابھی اس پرعمل کرنا چاہیے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.