!‏تحریک لبیک پاکستان بطور سیاسی قوت

[post-views]
[post-views]

تحریر:        فاروق احمد چانڈیہ

تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے الیکشن میں2.19 ملین ووٹ حاصل کیے۔ گویا کہ تحریک لبیک قومی اسمبلی کی کوئی نشست تو حاصل نہ کر سکی مگر ووٹوں کے اعتبار سے پاکستان کی پانچویں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ کسی بھی سیاسی جماعت جسکی ایک مذہبی شناخت بھی ہو، ایسی کارکردگی یقیناً متاثر کن تھی۔ ناقدین تحریک لبیک پاکستان کو سیاسی قوت کے طور پر کم ہی دیکھتے ہیں مگر جب الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پارٹی رجسٹرڈ ہو اور قانونی طور پر الیکشن بھی لڑ سکتی ہو تو یہ جواز باقی نہیں رہتا کہ تحریک لبیک پاکستان سیاسی قوت ہے یا کہ کسی خاص مذہبی گروہ  سے تعلق رکھتی ہے۔ جمہوریت میں یہ لوگوں کا اختیار ہے کہ وہ جس مرضی سیاسی جماعت یا نظریے کو ووٹ دیں۔ تاہم نظریاتی و فکری بحث سے قطع نظر تحریک لبیک پاکستان نے 2018 میں متاثر کن سیاسی کارکردگی دکھائی تھی ۔

الیکشن2018 میں پنجاب اور کراچی کے انتخابی حلقوں میں تحریک لبیک پاکستان کا حلقہ جاتی ووٹ متاثر کن رہا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے اکیس سے زائد قومی اسمبلی کے حلقوں میں تحریک لبیک کا ووٹ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواران سے زیادہ رہا۔ ان اکیس میں سے سترہ نشستوں پر تحریک انصاف اور چار نشستوں پر مسلم لیگ ن کو شکست ہوئی۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے تحریک انصاف اور ن لیگ کو سبوتاژ کرنے کا کردار ادا کیا۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے پہلے ہی الیکشن میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

مولانا خادم حسین رضوی صاحب کی شخصیت تحریک لبیک پاکستان کے سپورٹرز کے لیے ہمیشہ متاثر کن رہی ہے۔ تاہم انکی وفات کے بعد انکے بیٹے سعد رضوی نے بھی مشکل ترین حالات میں پارٹی کو مضبوط رکھا ہے۔ تحریک لبیک پر پابندی سے لیکر موجودہ پاکستان بچاؤ لانگ مارچ تک تحریک لبیک پاکستان نے اپنی گردش میں عروج و زوال کا مشکل سفر طے کیا ہے۔ تاہم تجزیاتی طور پر سعد رضوی تحریک لبیک پاکستان کو بہتر قیادت فراہم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بہتر دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کا موجودہ پاکستان بچاؤ مارچ عددی تعداد کے لحاظ سے متاثر کن رہا ہے۔

تحریک لبیک پاکستان پر اسکے سیاسی مخالفین یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ مقتدر حلقے جماعت کی پشت پناہی پر ہیں۔ تاہم اس بارےمیں تحریک لبیک پاکستان ہی بہتر بتا سکتی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے اگر سیاسی طور پر بہتر پرفارم کرنا ہے تو اسکو بطور سیاسی جماعت ہی منظم ہونا ہو گا اور حلقہ جاتی سیاست کو ہی سیاسی سرگرمیوں کا محور بنانا ہو گا۔ اس عمل کے لیے مستقل سیاسی سرگرمیاں درکار ہوتی ہیں نا کہ واقعاتی سرگرمیاں۔ واقعاتی سرگرمیاں عوام کے اندر بہتر تاثر نہیں چھوڑتی ہیں۔ عوام کی سیاسی جماعتوں سے سیاسی امیدیں ہوتی ہیں اور گورننس اور سیاسی مسائل بھی اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنا کہ فکری مسائل۔ صرف فکری مسائل پر انحصار کر کے سیاسی الیکٹوریٹ کو نہیں جیتا جا سکتا۔

تحریک لبیک پاکستان کے لئے یہ بھی اہم ہو سکتا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد کر لے۔ پاکستان میں خصوصاً پنجاب میں صوبائی حلقہ جیتنے کے لئے پچاس ہزار اور قومی حلقہ جیتنے کے لیے ایک لاکھ ووٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے انتخابی حلقوں میں تحریک لبیک پاکستان کے ووٹس تو موجود ہیں مگر اتنے ووٹس نہیں کہ وہ حلقے جیت سکیں۔ دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان ووٹس کے لحاظ سے پاکستان کی پانچویں اور صوبہ پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے اور قومی اسمبلی کے بیشتر حلقوں میں دس ہزار سے زیادہ ووٹس رکھتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن کے لیے تحریک لبیک پاکستان سے انتخابی اتحاد اہم ہو سکتا ہے۔ پنجاب اور کراچی کی بیشتر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر تحریک لبیک کا کردار اہم ہو سکتا ہے اگر ووٹس ڈالنے کی شرح کم رہے۔ ووٹس کے ساتھ تحریک لبیک پاکستان اسٹریٹ پاور بھی رکھتی ہے۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

آخر میں تحریک لبیک پاکستان ایک سیاسی حقیقت ہے اور پاکستان کے میڈیا اور سیاست دانوں کو تحریک لبیک پاکستان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ۔ سیاست میں سیاسی جماعتوں کو تفریق کی بجائے جمع کیا جاتا ہے۔ آخر میں حکمرانی اللہ کی ہے اور یہ تفویض کردہ اختیار آئین پاکستان کے مطابق عوام کا ہے کہ وہ کس کو منتخب کرتے ہیں۔ لہذا یہ اختیار عوام کو ہی ملنا چاہیے کہ وہ تحریک انصاف ، ن لیگ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام ، جماعت اسلامی ، تحریک لبیک ، ایم کیو ایم ، جی ڈی اے میں کسی کو کتنی تعداد میں نمائندگی تفویض کرتے ہیں۔ پاکستان وفاقی جمہوریہ ہے اور سیاسی جماعتیں پاکستان کا سیاسی گلدستہ ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اہم ہے اور سیاسی جماعتوں کی مضبوطی سے پاکستان میں فیڈریشن اور جمہوریت مضبوط ہو گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos