بلوچ دہشت گرد گروہ ریاست پاکستان سے جنگ نہیں جیت سکتے

[post-views]
[post-views]

ارسلان کاکڑ

بلوچستان میں جاری مسلح تحریک نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے بلکہ خود بلوچستان کے عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ اگرچہ بلوچستان میں سیاسی، معاشی اور سماجی محرومیوں کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن ان حقیقی شکایات کے باوجود مسلح مزاحمت یا دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنا نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ اس سے بلوچ کاز کی اخلاقی حیثیت بھی مجروح ہوتی ہے۔

بلوچستان کے عوام کو ماضی میں وفاقی حکومتوں کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، ترقیاتی منصوبے پیچھے رہ گئے، وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ رہی اور سیاسی شمولیت محدود رہی۔ ان محرومیوں پر آواز اٹھانا ہر شہری کا آئینی حق ہے، لیکن جب اس آواز کو بندوق کی گولی اور بارود کی بو میں دبایا جائے تو مقصد پس منظر میں چلا جاتا ہے اور صرف انتشار باقی رہتا ہے۔

بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی تحریک تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے اور انسانی جانوں کی پرواہ نہیں کرتی تو وہ اپنی اخلاقی برتری کھو بیٹھتی ہے۔ ایسے حملوں سے نہ صرف پورے ملک میں بلوچستان کے ساتھ ہمدردی کمزور پڑتی ہے بلکہ ریاست کو سخت اقدامات کا جواز بھی مل جاتا ہے، جو جمہوری جدوجہد کے راستے میں مزید رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کوئی بھی غیر ریاستی مسلح گروہ ایک جدید، منظم اور طاقتور ریاست، جیسے پاکستان، کے ساتھ مسلح ٹکراؤ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اس کی فوج، عدلیہ، انٹیلی جنس ادارے اور بیوروکریسی مضبوط اور متحرک ہیں۔ ریاست جب طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر لے تو وہ کسی بھی شورش کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا محض سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔

بلوچ عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، سیاسی کارکنان اور سول سوسائٹی کے افراد کو چاہیے کہ وہ ان گروہوں سے خود کو علیحدہ کریں جو بندوق کے زور پر حقوق حاصل کرنے کے خواب دکھاتے ہیں۔ ان عناصر کی پالیسی سے بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ مزید نقصان پہنچے گا۔ اصل حل جمہوری جدوجہد، سیاسی شرکت اور آئینی راستے سے ہی نکل سکتا ہے۔

بلوچ عوام کا یہ بنیادی حق ہے کہ انہیں وفاق میں شناخت دی جائے، وسائل پر اختیار دیا جائے، روزگار، تعلیم، صحت اور سیاسی نمائندگی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب جدوجہد آئین کے دائرے میں رہ کر کی جائے۔ ریاست کے خلاف بغاوت کا راستہ، چاہے کتنا ہی پُرعزم کیوں نہ ہو، آخرکار ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔

اگر بلوچستان میں واقعی تبدیلی لانی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بلوچ قیادت عسکریت پسندی کو مسترد کرے اور جمہوری عمل کو اپنائے۔ سیاسی جماعتوں کو مضبوط کیا جائے، نوجوانوں کو تعلیم و تربیت کے مواقع دیے جائیں، اور انہیں سیاسی عمل میں شامل کیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل صرف اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب وہاں کے نمائندے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنی آواز بلند کریں، نہ کہ پہاڑوں پر بیٹھ کر بندوق چلائیں۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

ریاست کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کو جگہ دے، جبر و تشدد سے اجتناب کرے، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرے، اور ایک ایسے وفاقی نظام کو فروغ دے جس میں ہر اکائی کو برابری کا احساس ہو۔ ریاست اگر سچ میں بلوچستان کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے تو اسے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان اقدامات میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل، انسانی حقوق کی بحالی، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم شامل ہے۔

آخرکار، بندوق سے حاصل ہونے والا سکون وقتی ہوتا ہے جبکہ آئین، قانون اور مکالمے سے حاصل ہونے والے حقوق دیرپا اور پائیدار ہوتے ہیں۔ بلوچستان کا مستقبل بندوق میں نہیں، بلکہ پارلیمان، تعلیم، ترقی اور سیاسی شرکت میں پوشیدہ ہے۔ وہ گروہ جو نوجوانوں کو عسکریت کی طرف دھکیل رہے ہیں، درحقیقت بلوچستان کو تنہائی، غربت اور تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچ عوام اور قیادت سیاسی تدبر کا مظاہرہ کریں، ریاست کے اندر رہ کر ریاست سے بات کریں، اور بندوق کو نہیں بلکہ دلیل، مکالمے اور جمہوریت کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ صرف اسی صورت میں بلوچستان ترقی کرے گا اور وہ مقام حاصل کرے گا جس کا وہ آئینی طور پر حق دار ہے۔ بلوچ دہشت گرد گروہ نہ ماضی میں ریاست پاکستان کو شکست دے سکے ہیں، نہ مستقبل میں یہ ممکن ہے۔ بلوچستان کی نجات کا راستہ بندوق سے نہیں، ووٹ سے گزر کر جاتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos