پاکستان کا مالی سال 2025-26 کا بجٹ: قرضوں کی پالیسی، آئی ایم ایف کی شرائط اور معاشی تضادات

[post-views]
[post-views]

ظفر اقبال

پاکستان کا حالیہ منظور شدہ 17.6 کھرب روپے کا ‘کفایت شعاری’ پر مبنی بجٹ ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کی پالیسی کی پاسداری کی کوشش ہے تو دوسری جانب اندرونی معاشی کمزوریوں، سیاسی مصلحتوں اور دیرینہ اصلاحاتی ناکامیوں کا آئینہ بھی ہے۔ بجٹ بظاہر ایک مالیاتی استحکام کا خاکہ پیش کرتا ہے، مگر اس کی بنیادیں کمزور اور اہداف غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔

حکومت نے اگلے مالی سال میں 2.4 فیصد پرائمری سرپلس کا ہدف مقرر کیا ہے، تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد جاری رہے۔ ساتھ ہی معیشت کو 4.2 فیصد کی شرح سے بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے، مگر نجی شعبے کی کمزور سرمایہ کاری، مہنگی قرضہ جاتی لاگت اور حکومتی محرکات کی کمی کی روشنی میں یہ ہدف انتہائی پرامید لگتا ہے۔

ٹیکس وصولیوں کا ہدف 14.1 کھرب روپے رکھا گیا ہے، جس میں 463 ارب روپے کے نئے ٹیکس شامل ہیں۔ تاہم زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل جیسے سیاسی طور پر حساس شعبے بدستور ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ یوں سارا بوجھ متوسط طبقے اور صارفین پر پڑتا ہے، جبکہ طاقتور طبقے فائدے میں رہتے ہیں۔

ایف بی آر کو ٹیکس چوری کے خلاف سخت کارروائی کے لیے جو اختیارات درکار تھے، وہ پیپلز پارٹی کے دباؤ پر محدود کر دیے گئے ہیں۔ مثلاً اب گرفتاری صرف اُن موارد میں ہو سکے گی جہاں چوری کی رقم 50 ملین روپے سے زائد ہو، وہ بھی تحقیقاتی مرحلے میں نہیں بلکہ کمیٹی کی منظوری سے ہوگی۔ یہ سیاسی مصلحت معاشی اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

کچھ رعایتیں بھی دی گئی ہیں: جیسے 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے آمدن والوں پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کر دی گئی ہے۔ درآمدی سولر پینلز پر تجویز کردہ 18 فیصد ٹیکس کم کرکے 10 فیصد کر دیا گیا ہے۔ تاہم یہ سہولتیں بجٹ کے اہداف کو متاثر کر سکتی ہیں۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے 8.2 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو پورے بجٹ کا تقریباً نصف ہے۔ دفاعی اخراجات 2.55 کھرب روپے اور سب سڈی کے لیے 1.1 کھرب روپے رکھے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ صرف 1 کھرب روپے ہے، جو پینشن اخراجات کے برابر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے پاس ترقیاتی کاموں کے لیے مالی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

دوسری طرف، ٹیکس مراعات یعنی ٹیکس سےباستثناء کی رقم 5.3 کھرب روپے سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں سے بیشتر فائدہ سرکاری و عسکری اداروں یا بااثر تجارتی اداروں کو دیا جا رہا ہے۔ یہ تضاد اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عام شہریوں پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے جبکہ اشرافیہ کو بچایا جا رہا ہے۔

یہ بجٹ پچھلے بجٹوں کی ہی ایک توسیع معلوم ہوتا ہے، جس میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے مگر دیرپا اصلاحات سے گریز کیا گیا ہے۔ معاشی اہداف حقیقت سے دور ہیں اور غالب امکان ہے کہ مالی سال کے اختتام پر یہ ہدف پورے نہ ہو سکیں۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے مجبور ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل مجبوری حکمران طبقے کی وہ سیاسی کمزوریاں اور مفادات ہیں جن کی وجہ سے اصلاحات کی راہ اختیار نہیں کی جاتی۔

پاکستان کی اقتصادی پسماندگی بیرونی عوامل کی وجہ سے نہیں بلکہ اندرونی فیصلوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ جب تک اشرافیہ اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتی اور حقیقی اقتصادی اصلاحات پر عمل نہیں کیا جاتا، ایسے بجٹ صرف کاغذی کاروائی رہیں گے — نہ کہ ترقی کا کوئی ٹھوس منصوبہ۔

یہ بجٹ اگرچہ قرضوں کی پالیسی کے مطابق دکھائی دیتا ہے، لیکن اس میں دوررس اصلاحات کا فقدان ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک اور ضائع شدہ موقع بن سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos