
جناب کے پلے کچھ تھا نہیں، معمولی سی ملازمت تھی۔چند لوگ ماتحت تھے مگر وہ ہر کام میں سازش کا پہلو ڈھونڈ لیتے تھے۔ان کی حرکات و سکنات سے لگتا تھا کہ دنیا کا محور وہی ہیں اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، ان کے مشورے سے ہو رہا ہے یا انہیں ان کے عہدہ جلیلہ سے برخاست کرنے کیلیے کوئی سازش کی جا رہی ہے۔ان دو افعال کے علاوہ وہ کچھ اور سوچنے سمجھنے کے قابل نہ تھے۔ایک دن ایک تقریب میں اپنے روایتی موڈ میں تھے۔خود پسندی کے آسمان سے نیچے اترنے کیلیے کسی صورت تیار نہ تھے۔ایک صاحب کو ان کے رویے پر بڑی حیرت ہو رہی تھی۔وہ ان سے آشنا نہ تھا۔ان کے ایک ماتحت سے سرگوشی میں پوچھا” یہ نابغہ کون ہے؟انتہائی آہستگی سے بتایا گیا” دنیا کو سینگوں پر اٹھاۓ کھڑی”گاں””۔ اس ایک فقرے میں حکمت کا جہان پوشیدہ ہے۔ جب کسی انسان ، کسی ملک، کسی تہذیب کو یہ مغالطہ لاحق ہو جاتا ہے کہ بس وہی سب کچھ ہے، سب کچھ اس کے بس میں ہےتو پھر ان کے زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔فرقان میں واضح الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے “فقط اللہ کی ہستی کو بقا ہے، باقی سب کو فنا ہے”۔تکبر ، تنزلی کی سیڑھی پر رکھا گیا ایسا قدم ہے جس کے بعد مزید کوئی قدم نہ بھی اٹھایا جاۓ تو زوال آ کر رہتا ہے۔ انسان کی نہ کوئی اوقات ہے نہ بساط۔ مرقوم ہے ” ایک وقت ایسا بھی تھا جب انسان کوئی قابل ذکر شے نہ تھا اور چند سالہ عروج کے بعد پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹنا شروع کر دیتا ہے اور ایک دن اس کا یہ سفر مکمل ہو جاتا ہے۔ ہر انسان کا آخری پڑاؤ قبر ہے۔ شاعر مشرق نے ایک آفاقی اصول انتہائی سادہ الفاظ میں بیان فرمایا: “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں” ۔ بچہ اور بزرگ خود کفیل نہیں ہوتے، دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ہر بچہ اگر زندہ رہ جاۓ تو بزرگ بن کرکمزوری کی حالت سے دوبارہ گزرتا ہے لیکن کیا کیا جائے ،ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جنہیں عمر کے کسی نہ کسی مرحلے میں یہ خبط لاحق ہو جاتا ہے کہ موصوف ہی وہ “گاں” ہیں جس نے دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔زیادہ پرانی بات نہیں جب برصغیر میں توہم پرستی کا رواج تھا۔ برصغیر پاک ہند کے باشندوں کی قابل ذکر تعداد یقین رکھتی تھی کہ دنیا کو ایک “گاں”نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے۔ جب وہ سر کو ہلاتی ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ محترم سیفی صاحب فرماتے ہیں” دنیا “گاں” کے سینگوں پر نہیں، ماں کی دعاؤں پر کھڑی ہے۔ جب تک اللہ تعالی نے عورتوں میں ممتا رکھی ہے دنیا قائم بھی رہے گی ،دائم بھی رہے گی، آباد رہے گی ،شاد رہے گی۔ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا۔ اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبرﷺ کو رحمت العالمین کے لقب سے نوازا ہے ۔مرقوم ہے کہ ” اللہ تعالی اپنے بندے سے اس کی ماں سے بھی ستر یا اسی گنا زیادہ محبت کرتا ہے “۔دھرتی بھی ماں ہوتی ہے ۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالی نے 1947 میں ہمیں دنیا کی خوبصورت ترین دھرتی ماں عطا فرمائی ۔الحمد اللہ! ہمارا ملک کسی لسانی،قبائلی، گروہی تعصب کا نتیجہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی بنیاد اللہ تعالی کے بہترین دین پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ،اس سے بڑا اعزاز کوئی نہیں ہو سکتا کہ کسی ملک کے حصول کی جدوجہد فقط اس لیے کی جاۓ کہ اللہ تعالی کا دین سربلند ہو سکے۔عوام اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اللہ تعالی کے ہاں نیتوں کا اجر ہے۔ ہمارے بزرگ انتہائی نیک نیت اور خوبصورت لوگ تھے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا ایک ہمسایہ ملک ہمارے وجود کا دشمن ہے۔ہمیں کسی کے مذہبی عقائد سےکوئی سروکار نہیں لیکن ریکارڈ کی درستگی کیلیے بتانا ضروری ہے کہ گاؤماتا کا پجاری ، مودی مداری اس وقت ہے گواچی “گاں” مگر خود کو وہ “گاں” سمجھتا ہے جس نے تمام کائنات کو اپنے سینگوں پہ اٹھا رکھا ہے۔موجودہ بھارت کا من پسند مشغلہ اخلاقیات کی تجارت ہے ، موجودہ بھارتی حکومت بصیرت سے عاری و بے بصارت ہے، دوسروں کے لیے اس کے دامن میں فقط حقارت ہے لیکن مسلم کو اللہ پاک کی طرف سے بشارت ہے” کوئی نا پاک ارادہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ہمارا دین طہارت ہے، بصارت ہے، ہمارا دشمن غارت تھا، غارت ہے”۔ اسلام “سلم” سے ہے۔سلم کا مطلب سلامتی ہے۔ اس خطے کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کی طویل ترین حکومت کے دوران کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا ۔ اگر مسلم حکمرانوں کو لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا ذرا بھی شوق ہوتا تو آج بھارت میں ایک ہندو بھی نظر نہ آتا۔ برصغیر میں اسلام عرب تاجروں کی محنت سے اور صوفیا کرام کی اعلی ظرفی کی بدولت پھیلا ۔ہمارے آباؤ اجداد مسلمان ہوئے تو کسی جبر کی وجہ سے نہیں ہوئے۔ اسلام کا ایک آفاقی اصول ہے ،دین میں کوئی جبر نہیں۔آر ایس ایس کے غنڈہ عناصر جو آج کل بھارت میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہیں، احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ مقامی مسلمان جو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں رہ رہے ہیں، ان کے آباؤ اجداد کو زبردستی مسلمان بنایا گیا تھا۔ انہیں دوبارہ ہندو بنانا چاہیے۔ جو مسلمان بیرونی ممالک سے آ کر بھارت میں آباد ہوۓ ہیں، انہیں ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیج دینا چاہیے۔ اس غلیظ خواہش کی تکمل کیلیے بھارت ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایڈونچر کرتا ہے۔ماہرین تاریخ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ریڈ کلف نے برصغیر کی تقسیم منصفانہ طور پر نہیں کی ، نہرو کی محبت میں ڈنڈی نہیں ، ڈندیاں ماریں۔قائد اعظم اس ناانصافی پر بہت نالاں تھے لیکن انہوں نے ایک عملی آدمی کی طرح اس کو قبول کیا ۔ دنیا کا کوئی اخلاقی ضابطہ بھارت کو کشمیر پر ذرا برابر بھی حق نہیں دیتا لیکن ہر بھارتی حکومت ا ٹوٹ انگ کا راگ الاپ کر عالمی امن میں بھنگ ڈالتی رہتی ہے۔بھارت سمجھتا ہے، آج بھی ہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے دور میں زندہ ہیں۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان نے ہر موقع پر انہیں جتلایا ہے کہ نہ لاٹھی ان کی ہے نہ بھینس ۔ لاٹھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہم جب چاہیں انہیں بھینس کی طرح ہنکا کر ان کی اوقات یاد دلا سکتے ہیں۔الحمدللہ !اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود بھارت آج تک ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا۔ ہمارا ملک اللہ تعالی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور جب بھی اس کی بقا کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہےتو پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے ، دشمن کے لیے خار بن جاتی ہے اور اسے خوار کر دیتی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ متحد رکھے۔قوم کا عزم ،بزبان شاعر:-
محشر کا ہے منظر ہر جانب
کیوں رن کی زمیں تھرائی ہے
ہلچل ہے صفوں میں اعداء کی
ہر دل پر ہیبت چھائی ہے
اک شور جنوں ہے میداں میں
اللہ کا لشکر آتا ہے
ہر مرد مجاہد کا نعرہ
دل دشمن کا دہلاتا ہے
اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر
غالب ہیں خدا کا وار ہیں ہم
لڑنے کیلیے تیار ہیں ہم
جو برق رواں سے بڑھ کر ہیں
وہ عزم و وفا کا پیکر ہیں
میدان وغا میں ہم غازی
لمحوں میں عدو کے سر پر ہیں
مٹی کی قسم ۔۔۔ہر دم پیہم
کر دیں گے ختم۔۔۔بڑھتے یہ قدم
ہاں جرات کی یلغار ہیں ہم
لڑنے کیلیے تیار ہیں ہم
اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر
جب جوش و جنوں ہو جذبوں میں
شہداکا لہو ہو نظروں میں
دشمن کا مگر جو ڈھا نہ سکا
نہ میداں میں نہ سپنوں میں
اس دہر میں وہ دیوار ہیں ہم
لڑنے کیلیے تیار ہیں ہم
غالب ہیں خدا کا وار ہیں ہم
لڑنے کیلیے تیار ہیں ہم
اس قوم سے تو ٹکرایا ہے
اسلام کا جو سرمایا ہے
کیا تجھ کو خبر یہ کون بشر
یہ کن کا لہو گرمایا ہے
یہ جاہ و ہشم۔۔۔ملت کا بھرم
ہم شعلہ فشاں۔۔۔۔ہر پل ہر دم
دشمن کیلیے انگار ہیں ہم
لڑنے کیلیے تیار ہیں ہم
غالب ہیں خدا کا وار ہیں ہم
لڑنے کیلیے تیار ہیں ہم
اللہ اکبر۔۔اللہ اکبر۔۔اللہ اکبر