ایشیا کا بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران: پاکستان کیلئے وجودی خطرہ

[post-views]
[post-views]

رضوان مدثر

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی جاری کردہ “اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ ان ایشیا 2024” رپورٹ ایک خطرناک حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے: ایشیا میں ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی مستقبل کی دھمکی نہیں، بلکہ ایک جاری ہنگامی صورتحال بن چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سال 2023 میں ایشیا نے عالمی اوسط سے تقریباً دو گنا زیادہ تیزی سے درجہ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا، جبکہ یہ سال 2020 کے ساتھ مل کر سب سے زیادہ گرم سالوں میں شامل رہا۔

رپورٹ کے اعداد و شمار انتہائی تشویشناک ہیں۔ سمندری گرمی کی لہر 1.5 کروڑ مربع کلومیٹر پر پھیل گئی، جو بحری حیات اور ماہی گیری پر منحصر معیشتوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بحر ہند اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر سمندر کی سطح میں اضافہ عالمی اوسط سے بھی زیادہ ریکارڈ ہوا، جس سے ساحلی بستیوں، معیشتوں اور پینے کے پانی کے ذخائر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہمالیہ اور تیان شان کے یخچال ریکارڈ رفتار سے پگھل رہے ہیں، جو پورے برصغیر کے دریائی نظام کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

سال 2023 میں موسم کی شدت اور غیر متوقع تبدیلیاں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شدید اور وسیع پیمانے پر تھیں۔ وسطی ایشیا میں گزشتہ 70 سال کا بدترین سیلاب آیا، جبکہ جنوبی اور مشرقی ایشیا شدید گرمی کی لپیٹ میں رہے، جس سے متعدد اموات، بجلی کی بندش اور بھاری معاشی نقصانات ہوئے۔ ان مظاہر نے اس امر کو واضح کیا کہ اب ہر موسم نئی تباہی اور بے یقینی لے کر آتا ہے۔

پاکستان اس بحران کے عین مرکز میں واقع ہے۔ ماہرین کے مطابق، 1961 کے بعد سال 2023 کا اپریل پاکستان کے لیے سب سے زیادہ مرطوب رہا، جس میں بارش کی مقدار معمول سے 164 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ مغربی ہواؤں کے دباؤ نے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں شدید گرج چمک، ژالہ باری اور سیلابی صورتحال پیدا کی، جس سے درجنوں افراد جاں بحق اور ہزاروں مکانات تباہ ہوئے۔

موسم بہار کی اس غیر معمولی بارش کے بعد جلد ہی شدید گرمی کا آغاز ہوا، جس نے زرعی پیداوار اور انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ ساتھ ہی بحیرہ عرب کی گرم ہوتی ہوئی سطح مزید خطرناک اور غیر متوقع طوفانوں کو جنم دے رہی ہے، جو پاکستان کے ساحلی علاقوں کے لیے نیا چیلنج ہے۔ شمالی علاقوں میں یخچال‌ها کا تیزی سے پگھلنا نہ صرف ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہا ہے بلکہ جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات بھی بڑھا رہا ہے، جو چند لمحوں میں پورے گاؤں کو بہا سکتے ہیں۔

ان سنگین خطرات کے باوجود، پاکستان میں ماحولیاتی مطابقت کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ ناکافی اور غیر مربوط ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایشیائی ممالک ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں، جس میں حقیقی وقت میں موسمی ڈیٹا کا تبادلہ، دریاؤں کے سرحد پار نظم و نسق، اور مشترکہ آفات سے نمٹنے کی مشقیں شامل ہوں۔

پاکستان کے لیے لازم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے ایک صفحے پر آئیں۔ ابتدائی خبردار نظام کو ملک کے تمام علاقوں تک پہنچانا ہوگا اور اسے مقامی زبانوں میں مؤثر بنانا ہوگا۔ شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی تحفظ کو شامل کرنا ہوگا، خاص طور پر ایسے قوانین جو سیلاب سے بچاؤ کی زوننگ کو یقینی بنائیں اور نالوں اور نکاسی آب کے نظام کو جدید بنائیں۔

دیہی علاقوں میں سرمایہ کاری کو ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ زرعی طریقوں کی طرف موڑنا ہوگا، جیسے متنوع فصلیں، بہتر آبپاشی، اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی بحالی۔ ساحلی علاقوں میں مانگروها کی بحالی انتہائی ضروری ہے، جو قدرتی طور پر طوفانی لہروں کو کم کرتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ مالیاتی اداروں کو ماحولیاتی مطابقت کے لیے فنڈنگ کو ترجیح دینی ہوگی۔ اب اسے اختیاری خرچ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا بنیادی عنصر تسلیم کرنا ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ اب ماحولیاتی تبدیلی ہمارا روزمرہ کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک کو فوری، مربوط اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے، وگرنہ ہم صرف ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ اب تیاری ایک انتخاب نہیں، بلکہ بقاء کا تقاضا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos