پاکستان کی کپاس کی معیشت بحران کا شکار، بحالی کے لیے ہائبرڈ بیجوں کی ضرورت

[post-views]
[post-views]

شبانہ صفدر خان

پاکستان کی کپاس کی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک میں سالانہ 1 کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں سے زیادہ کپاس پیدا ہوتی تھی، مگر گزشتہ سیزن میں یہ پیداوار کم ہو کر صرف 55 لاکھ گانٹھوں تک محدود رہ گئی۔ اس کمی نے نہ صرف ملکی ٹیکسٹائل صنعت کو شدید متاثر کیا ہے بلکہ کپاس کی درآمد پر انحصار بڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی اضافی دباؤ ڈال دیا ہے۔

کپاس کی گرتی ہوئی پیداوار کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، موسمیاتی تبدیلیوں نے فصل کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول کو متاثر کیا ہے۔ دوسری جانب، ناقص معیار کے بیج، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، اور روایتی کپاس کے علاقوں میں گنے جیسی زیادہ منافع بخش فصلوں کی کاشت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ نے کسانوں کو کپاس سے دور کر دیا ہے، جو اب دیگر فصلوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

ان چیلنجز کے باوجود، ہائبرڈ چاول اور مکئی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے نجی شعبے کی کئی کمپنیوں نے ہائبرڈ کپاس متعارف کروانے کی نئی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ چند ماہ قبل حکومت کی جانب سے ہائبرڈ بیجوں کی درآمد پر سے پابندی ہٹائے جانے کے بعد، پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں تقریباً 150 ایکڑ رقبے پر ہائبرڈ کپاس کاشت کی گئی ہے۔

تاہم زرعی سائنسدانوں اور کپاس کے شعبے سے وابستہ کچھ ماہرین ان تجربات کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ان کی تشویش کی وجہ ماضی میں کیے گئے ناکام تجربات ہیں، جہاں درآمد شدہ ہائبرڈ بیج مقامی آب و ہوا کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکے اور متوقع نتائج نہ دے سکے۔ تاہم، حالیہ تجربات کے نتائج فصل کی کٹائی کے بعد ہی مکمل طور پر سامنے آئیں گے، اس لیے ان کے بارے میں حتمی رائے دینا قبل از وقت ہے۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ماضی میں سرکاری و نجی سطح پر ہائبرڈ کپاس کے تجربات ناکام ہوئے۔ مگر ان ناکامیوں کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بیج پاکستان کے مخصوص موسمی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اب کی بار آزمائے جانے والے نئے بیجوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ مقامی ماحول میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ نئے بیج مقامی کمزور اور چھوٹے ریشے والی اقسام کے مقابلے میں زیادہ پیداوار دیں گے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

گزشتہ ناکامیوں کو بھولنا نہیں چاہیے، مگر انہیں مستقبل کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بھی نہیں بننے دینا چاہیے۔ درحقیقت، یہ وقت ہے کہ زرعی سائنسدان اپنی ناکامی کو تسلیم کریں کہ وہ اب تک ایسی مقامی اقسام تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو اعلیٰ پیداوار کی حامل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کسان کپاس چھوڑ کر دوسری فصلوں کی طرف جا رہے ہیں۔

پاکستان کی برآمدات میں کپاس اور اس پر مبنی ٹیکسٹائل مصنوعات کا کردار سب کے سامنے ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں ملکی پیداوار میں کمی اور درآمدات پر انحصار کے باعث برآمدی منافع کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، تو کپاس کی مقامی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔

اس مقصد کے لیے ہمیں ایسے اعلیٰ معیار کے بیج متعارف کرانے کی مکمل حمایت کرنی ہوگی جو زیادہ پیداوار دے سکیں — چاہے وہ ہائبرڈ ہوں یا مقامی تحقیق سے تیار کردہ۔ حکومت، تحقیقی ادارے، اور نجی کمپنیاں ایک ساتھ مل کر اس بحران سے نکلنے کا راستہ نکال سکتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری کی جائے، کسانوں کو تکنیکی تربیت فراہم کی جائے، اور بیجوں کے تجربات کو مقامی سطح پر مکمل سائنسی بنیادوں پر کیا جائے۔ اسی کے ذریعے ہم کپاس کی بحالی کی جانب عملی قدم بڑھا سکتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کپاس کا بحران ناقابلِ واپسی نہیں۔ اگر سنجیدگی، دیانتداری اور سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے، تو پاکستان ایک بار پھر کپاس کے میدان میں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ ہائبرڈ کپاس کوئی جادوئی حل نہیں، مگر اگر اسے صحیح طریقے سے اپنایا جائے تو یہ پاکستان کی کپاس کی معیشت کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos