ادارتی تجزیہ
پاکستانی بیوروکریسی ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس کی جڑیں میرٹ کی پامالی، سیاسی مفادات اور ادارہ جاتی اثر و رسوخ میں پیوستہ ہیں۔ جب اعلیٰ انتظامی افسران — جیسے ڈپٹی کمشنرز، سیکریٹریز یا پولیس افسران — کو کسی مخصوص سیاسی یا بااثر حلقے کی سفارش پر تعینات کیا جاتا ہے، تو یہ افسران نہ صرف قانون سے بالاتر ہو جاتے ہیں بلکہ پورے نظام کو ذاتی مفادات کے تابع کر دیتے ہیں۔
ریپبلک پالیسی کی تحقیق کے مطابق، ان بااثر تعیناتیوں کا براہ راست تعلق کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور عوامی خدمت کی ناکامی سے ہے۔ ایسے افسران چونکہ اپنی پوزیشن کو طاقتور پشت پناہی کا نتیجہ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ قانون، ضابطے اور شفافیت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ نتیجتاً، نچلے درجے کے افسران بھی اسی کلچر کو اپناتے ہیں، اور ادارے ایک مخصوص طبقے کے مفاد کا آلہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
https://www.youtube.com/@TheRepublicPolicy
جب گورننس کا یہ ڈھانچہ مفادات، تعلقات اور اقربا پروری پر قائم ہو، تو سب سے زیادہ نقصان وہ شہری اٹھاتے ہیں جو انصاف، روزگار اور بنیادی خدمات کے محتاج ہوتے ہیں۔ چھوٹے ملازمین دباؤ اور خوف میں کام کرتے ہیں، جبکہ اعلیٰ افسران قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ یوں ریاستی نظام غیر مؤثر، غیر شفاف اور غیر منصفانہ ہو جاتا ہے۔
اس بحران کا حل صرف ایک ہے: اعلیٰ سطح کی تمام تقرریاں مکمل طور پر میرٹ، قابلیت، اور قانون کے مطابق کی جائیں۔ جب اوپر انصاف ہو گا، تو نیچے تک قانون کی حکمرانی خودبخود قائم ہو جائے گی۔ بیوروکریسی میں اصلاحات کا پہلا اور بنیادی قدم میرٹ کی بحالی ہے — یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک شفاف، فعال اور عوام دوست گورننس قائم ہو سکتی ہے۔