ظفر اقبال
جب مائیکروسافٹ جیسی عالمی شہرت یافتہ کمپنی پاکستان کے کاروباری ماحول پر تنقید کرے تو یہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ ایک اہم انتباہ سمجھا جانا چاہیے۔ حالیہ دنوں میں مائیکروسافٹ کے پاکستان میں سربراہ نے صاف الفاظ میں کہا کہ ملک کا کاروباری ماحول غیر تسلی بخش ہے۔ یہ وہ بات ہے جو بہت سے مقامی تاجر، سرمایہ کار اور معاشی ماہرین پہلے ہی محسوس کر رہے تھے، لیکن جب یہ بات ایک بین الاقوامی کمپنی کے نمائندے کی طرف سے آتی ہے، تو اس کی سنگینی دوچند ہو جاتی ہے۔
اگر مائیکروسافٹ جیسے ادارے کو یہاں کاروبار کرنے میں مشکلات درپیش ہیں، تو چھوٹے اور درمیانے درجے کے سرمایہ کاروں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم حقیقت کا سامنا کریں اور تسلیم کریں کہ پاکستان کا کاروباری ماحول اصلاحات کا شدید متقاضی ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلے بات ہونی چاہیے مؤثر اور مربوط رابطہ کاری کی۔ سرمایہ کاروں کے ساتھ حکومت کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کار اکثر خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہیں کوئی واضح فورم یا نظام میسر نہیں جہاں وہ اپنی شکایات، تجاویز یا مسائل پیش کر سکیں۔ اسپیشل انویسٹ منٹ فی سیلی ٹیشن کونسل کو ایک فعال ادارے کے طور پر کام کرنا ہوگا، جہاں سرمایہ کاروں سے باقاعدہ مشاورت، ملاقاتیں اور حل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
دوسرا بڑا مسئلہ کاروبار کرنے کی لاگت ہے۔ توانائی کے نرخ، قرضوں پر شرح سود، اور عمومی مہنگائی نے کاروباری لاگت کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ گیس اور بجلی کے بل غیر متوقع حد تک بڑھ چکے ہیں، جس سے صنعتیں یا تو بند ہو رہی ہیں یا مسلسل نقصان میں جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں سے قرض حاصل کرنا بھی انتہائی مہنگا اور پیچیدہ عمل بن چکا ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہماری صنعتیں عالمی سطح پر مقابلے کے قابل ہیں؟ بدقسمتی سے زیادہ تر شعبے اس قابلیت سے محروم ہیں۔ انفراسٹرکچر پرانا ہے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال محدود ہے اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی شدید کمی ہے۔ ان بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر عالمی سرمایہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا ممکن نہیں۔
قانونی نظام بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں عدالتی کارروائی سست، مہنگی اور غیر یقینی ہوتی ہے۔ اگر کسی کمپنی یا سرمایہ کار کو قانونی مسئلہ درپیش ہو، تو وہ برسوں عدالتوں کے چکر کاٹتا رہتا ہے۔ فوری انصاف، خاص طور پر تجارتی مقدمات میں، سرمایہ کار کے اعتماد کے لیے ناگزیر ہے۔ عدالتوں، ٹربیونلز اور ریگولیٹری اداروں کو خودمختار، بااختیار اور جدید نظام سے آراستہ کرنا ہوگا۔
ٹیکس کا نظام بھی پیچیدہ اور غیر مربوط ہے۔ ایک ہی کاروبار کو مختلف سطحوں پر کئی ٹیکس اتھارٹیز سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس کے باعث کرپشن، تاخیر اور غیر یقینی صورتحال جنم لیتی ہے۔ ایک مربوط، شفاف اور ڈیجیٹل ٹیکس نظام وقت کی اہم ضرورت ہے، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے جو ٹیکس ماہرین رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی کی سست روی اور غیر مؤثر نظام ہے۔ کاروباری اجازت ناموں، رجسٹریشنز، لائسنسز اور دیگر سرکاری کارروائیوں میں سرمایہ کاروں کو مہینوں تک مختلف دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ ‘ون ونڈو آپریشن’ کا تصور حقیقت میں کبھی نافذ نہیں ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں کھڑکیاں ہیں اور ہر کھڑکی کے پیچھے نئی فائل اور نئی رکاوٹ موجود ہوتی ہے۔
کونسل کو اب وقت ضائع کیے بغیر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ صرف اجلاس منعقد کرنا یا اخباری بیانات جاری کرنا کافی نہیں۔ کونسل کو ٹاسک فورس کے طور پر کام کرنا ہوگا، جس کے پاس واضح اہداف، ٹائم لائنز اور جوابدہی کا نظام ہو۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی بھی ضروری ہے کیونکہ زمین، لوکل ٹیکس اور زوننگ جیسے امور صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے، چیمبرز آف کامرس، تاجر تنظیموں اور بین الاقوامی ماہرین سے مستقل مشاورت کا نظام بھی قائم کیا جانا چاہیے۔ پالیسی سازی اگر زمینی حقائق سے کٹی ہوئی ہو تو وہ کبھی مؤثر نہیں ہوتی۔
پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بھی ازسرنو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے جس میں دنیا کو یہ دکھایا جائے کہ ہم اصلاحات کر رہے ہیں، مواقع دے رہے ہیں اور ایک محفوظ اور مستحکم کاروباری ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سب دعوؤں سے نہیں بلکہ حقیقی اقدامات سے ممکن ہوگا۔
آخر میں ایک بات واضح ہے: اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ فوری اصلاحات نہ کیں، تو نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم ہوگا بلکہ مقامی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ سمیٹنے لگیں گے۔ وقت کم ہے اور چیلنج بڑا، مگر نیت، حکمت عملی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ہم ایک نئے معاشی باب کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اب فیصلے کا وقت ہے—کیا ہم سنجیدہ ہیں یا صرف باتیں کرنا جانتے ہیں؟













