ماریہ علی
پاکستان میں منشیات کے خلاف جنگ کئی برسوں سے جاری ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک آج بھی نشہ آور اشیاء کی لپیٹ میں ہے۔ یہ لعنت نہ صرف ہر طبقے اور صنف کو متاثر کر رہی ہے، بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی سرایت کر چکی ہے، جہاں نوجوان نسل کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ایک کال سینٹر کے ذریعے منشیات فراہم کرنے والے گروہ کو سیالکوٹ سے گرفتار کیا گیا، جس کا انکشاف اُس وقت ہوا جب ڈیلیوری بوائز کو غیر قانونی مواد کے ساتھ پکڑا گیا۔ وہ “پیکٹس” کی بکنگ کال سینٹر سے لیتے تھے اور پھر مخصوص گاہکوں تک پہنچاتے تھے۔
اس معاملے میں سب سے ہولناک انکشاف یہ تھا کہ گروہ کے سرغنہ کے مطابق 20 پولیس اہلکار ان کے پے رول پر تھے اور انہیں تحفظ فراہم کر رہے تھے۔ یہ انکشاف حیران کن نہیں، کیونکہ گزشتہ سال پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ میں 200 سے زائد اہلکاروں کے منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔ یہ صورت حال اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک نظام کے اندر موجود بدعنوان عناصر کو ختم نہیں کیا جاتا، اس قسم کی جزوی کارروائیاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
حکومتی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ گزشتہ سال جولائی میں لاہور میں ایک بین الاقوامی منشیات فروش نیٹ ورک پر چھاپہ مارا گیا، جو نہ صرف اسکولوں اور کالجوں میں منشیات فراہم کرتا تھا بلکہ بیرون ملک بھی اسمگلنگ کرتا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کوکین برآمدگی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے کوئی مؤثر قدم نہ اٹھایا۔
پاکستانی نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی بنیادی وجوہات میں بے روزگاری، ذہنی دباؤ، اور سماجی ناانصافی شامل ہیں۔ لیکن ہماری حکومتی پالیسی کا زیادہ تر زور کمزور طبقوں کو مجرم قرار دینے پر ہے۔ اس کے برعکس، اصل مجرم—یعنی وہ طاقتور افراد جو منشیات کے دھندے کو تحفظ دیتے ہیں—آزاد گھومتے ہیں۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
یہ ناقص پالیسیاں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ پورے معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں۔ منشیات کے استعمال سے گھر برباد ہو رہے ہیں، کمیونٹیز کا شیرازہ بکھر رہا ہے، اور نئی نسل ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج ہو رہی ہے۔ اس لعنت سے نجات صرف اس وقت ممکن ہے جب فوجداری نظامِ انصاف میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی جائیں۔ پولیس اور تحقیقاتی اداروں میں ایمانداری کو فروغ دیا جائے، اور قانون کا اطلاق بلا امتیاز یقینی بنایا جائے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ میں سیاسی عزم کا مظاہرہ ضروری ہے۔ جب تک سیاسی سرپرستی اور منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ ختم نہیں ہوتا، تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ ہمیں ایک ایسی قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو صرف چھوٹے اسمگلروں کے خلاف نہ ہو بلکہ اُن بااثر حلقوں کو بھی نشانہ بنائے جو اس کالے کاروبار کے اصل سرپرست ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، روک تھام کے لیے اقدامات بھی نہایت ضروری ہیں۔ تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات، بحالی مراکز، اور ذہنی صحت کی سہولیات کو ترجیح دی جائے۔ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کیا جائے تاکہ وہ خود کو منشیات سے دور رکھ سکیں۔ جب ریاست نوجوانوں کو کوئی امید نہیں دیتی، تو نشہ ان کے لیے فرار کا واحد راستہ بن جاتا ہے۔
عالمی سطح پر بھی پاکستان ایک اہم گزرگاہ ہے، خاص طور پر افغانستان سے یورپ کی جانب منشیات کی ترسیل کے لیے۔ اس پہلو پر بھی بھرپور توجہ دی جائے، لیکن بیرونی دباؤ کی آڑ میں اصل اندرونی خرابیوں کو نہ چھپایا جائے۔
آخرکار، ہمیں صرف نمائشی کارروائیوں سے آگے بڑھ کر مکمل نظامی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی جو منشیات کی طلب و رسد دونوں کو ختم کریں، متاثرین کی بحالی کو ممکن بنائیں، اور نوجوان نسل کو بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
یہ جنگ صرف منشیات فروشوں کے خلاف نہیں، بلکہ ایک نظام کے خلاف ہے جو طاقتور کو تحفظ اور کمزور کو سزا دیتا ہے۔ جب تک ہم اس نظام کو نہیں بدلتے، پاکستان کا مستقبل مسلسل خطرے میں رہے گا۔
ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے: اصلاح یا تباہی۔ اس کے درمیان اب کوئی درمیانی راہ نہیں بچی۔