ظفر اقبال
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حالیہ بیان میں کہا کہ برآمدات پر مبنی ترقی ہی پاکستان کا واحد راستہ ہے۔ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک پرانا اور فرسودہ معاشی ماڈل ہے جو آج کے حالات میں پاکستان کے لیے مؤثر نہیں رہا۔ عالمی معیشت میں بدلتے رجحانات، اور خود پاکستان کی معاشی ساخت، اس ماڈل کو ناقابلِ عمل بناتے ہیں۔
یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ترسیلاتِ زر پاکستان کے لیے برآمدات کے برابر بلکہ کئی مہینوں میں اُن سے زیادہ زرمبادلہ کا ذریعہ بنی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے ترسیلات کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا، حالانکہ ان میں وہ تمام درآمدی اخراجات شامل نہیں ہوتے جو برآمدات کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔
پاکستان کی برآمدات کا زیادہ تر انحصار درآمد شدہ خام مال اور مشینری پر ہے۔ جب حکومت برآمدات کو فروغ دینے کے لیے سبسڈی یا دیگر مراعات دیتی ہے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ درآمدات بھی بڑھ جاتی ہیں، جس سے تجارتی خسارہ بڑھتا ہے۔ یہ خسارہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرتا ہے اور پھر ملک ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اب تک پاکستان 24 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے، جو اس معاشی چکر کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں مالی سال کے جولائی سے اپریل تک کا تجارتی خسارہ 21.35 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس میں کمی صرف عارضی اقدامات یا بین الاقوامی منڈی میں برآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی بدولت آئی تھی، نہ کہ پائیدار اصلاحات کی وجہ سے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، مالی سال کے اختتام پر ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں، مگر ان میں 16 ارب ڈالر ایسے ہیں جو دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل کردہ قرضوں کی شکل میں ہیں۔ یہ رقوم مستقل اثاثہ نہیں بلکہ واجب الادا قرضے ہیں۔
آئی ایم ایف کی اکتوبر 2024 کی رپورٹ میں پاکستانی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے قیمتوں پر کنٹرول، سبسڈیز، اور زیادہ درآمدی محصولات نے مارکیٹ میں مسابقت کو کمزور کیا ہے اور سرمایہ کاری کو غیر مؤثر اور “ہمیشہ کے لیے ابتدائی” صنعتوں تک محدود کر دیا ہے۔ یعنی جو صنعتیں سالوں سے حکومتی مدد لے رہی ہیں، وہ اب بھی عالمی مقابلے کے قابل نہیں بن سکیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ مالی سال میں کوئی ایسی مراعات نہیں دی جائیں گی جو سرمایہ کاری کے ماحول کو متاثر کریں، جیسے کہ ٹیکس چھوٹ، سبسڈی، یا منافع کی ضمانت۔ اسی پالیسی کے تحت اسپیشل سرمایہ کاری کونسل کو بھی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ کسی کمپنی کو خصوصی رعایت دے۔
اس کے باوجود برآمد کنندگان اور دیگر صنعتی نمائندے بجٹ سے پہلے حکومت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ مزید مراعات حاصل کی جا سکیں۔ یہ وہی پرانا طرزِعمل ہے جس میں چند بااثر شعبے ہر سال اپنے لیے فائدے حاصل کرتے ہیں، جبکہ ملک کا عام شہری مہنگائی اور خسارے کی قیمت چکاتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو نئے وژن کی ضرورت ہے۔ ہمیں برآمدات بڑھانے سے پہلے اپنی صنعتوں کو مؤثر اور جدید بنانا ہوگا۔ ایسی مصنوعات تیار کرنا ہوں گی جو عالمی سطح پر مانگ رکھتی ہوں، نہ کہ صرف وہ جو مقامی طور پر فالتو ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ترسیلاتِ زر کو باضابطہ چینلز سے لانے، ان کے لیے مراعات دینے، اور دیہی معیشت کو مضبوط کرنے جیسے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ کا برآمدات پر زور دینا درست سمت میں ایک قدم ہو سکتا ہے، لیکن جب تک پیداواری صلاحیت، مسابقت، اور معاشی انصاف جیسے بنیادی مسائل حل نہیں کیے جاتے، اس ماڈل کی کامیابی کا امکان کم ہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان وہی پرانی پالیسیاں دہرانے کے بجائے پائیدار اور حقیقی معاشی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائے۔