شازیہ رمضان
دنیا کے رہنما ایک بار پھر نیویارک میں جمع ہو رہے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ اس سال عالمی ایجنڈے پر سب سے اہم انسانی بحران غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری تعزیتی بیانات اور کھوکھلے نعروں سے آگے بڑھے گی یا خاموشی اور بے عملی کے ذریعے اس جرم میں شریک سمجھی جائے گی؟
گزشتہ ایک سال غزہ کے عوام کے لئے ایک ڈراؤنا خواب رہا۔ اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے بستیوں کو مٹا ڈالا، اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ فلسطینیوں کو غزہ شہر سے زبردستی نکالا گیا۔ لیکن یہ نکالے جانے کا حکم ایک سفاک مذاق ہے کیونکہ غزہ میں کہیں بھی محفوظ پناہ نہیں۔ نام نہاد محفوظ علاقے بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں رہے، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ مقصد صرف قتل عام ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس ظلم کے سامنے مفلوج ہو چکی ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بار بار امریکہ نے ویٹو کیا ہے۔ اب تک چھ بار امریکہ نے جنگ بندی کی قرارداد کو روکا تاکہ اسرائیل کو جوابدہ نہ بنایا جا سکے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ اصل رکاوٹ عالمی اتفاق رائے نہیں بلکہ امریکی سرپرستی ہے۔
امریکہ کا کردار ویٹو تک محدود نہیں۔ فلسطینی وفد کے ویزے منسوخ یا روکے گئے ہیں جس کے باعث صدر محمود عباس کو اب جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنا ہوگا۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ صرف حماس کے خلاف نہیں بلکہ پورے فلسطینی عوام کے خلاف ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں صیہونی سوچ رکھنے والے عناصر کی غالب حیثیت اس پالیسی کی وضاحت کرتی ہے۔
اب جنرل اسمبلی ہی واحد پلیٹ فارم ہے جہاں عالمی برادری اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر سکتی ہے۔ اگر سلامتی کونسل مفلوج ہے تو جنرل اسمبلی کو اخلاقی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ محض جذباتی تقاریر کافی نہیں۔ دنیا کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے جن میں اسرائیل کا سفارتی و معاشی بائیکاٹ اور اسلحہ کی فراہمی پر مکمل پابندی شامل ہو، جب تک کہ اسرائیل مستقل جنگ بندی پر راضی نہ ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ کمزور تنقید قابض طاقتوں کو نہیں روکتی بلکہ انہیں مزید حوصلہ دیتی ہے۔ اگر دنیا نے اسی طرح آدھے دل سے ردعمل دیا تو اسرائیل نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے میں تباہی کو بڑھا دے گا۔ یہ معاملہ فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ بین الاقوامی قانون، عالمی اداروں کی ساکھ اور انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ جنرل اسمبلی ایک زبان ہو کر اعلان کرے: غزہ کا قتل عام ختم ہونا چاہیے، اسرائیل کو اپنے جرائم کا جواب دینا ہوگا اور ذمہ دار افراد کو عالمی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اقوام متحدہ تاریخ میں امن کے محافظ کے بجائے ایک تماشائی کے طور پر یاد رکھی جائے گی جس نے نسل کشی کے سامنے خاموشی اختیار کی۔