جاپان میں قوم پرست جماعت سان سیٹو کا ابھار: غیر ملکیوں کے خلاف بیانیہ سیاست کا نیا رجحان

[post-views]
[post-views]

سان سیٹو جماعت نے جاپان کے سیاسی منظرنامے میں حیران کن طور پر ایک غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک وقت میں ایوانِ بالا کی دو سو اٹھالیس نشستوں میں صرف ایک نشست رکھنے والی اس جماعت نے حالیہ انتخابات میں چودہ نشستیں جیت کر سیاسی حلقوں کو چونکا دیا ہے۔ اس جماعت کی بنیاد دو ہزار بیس میں عالمی وبا کے دوران رکھی گئی، جب اس نے ویکسین اور ماسک کے خلاف سازشی نظریات پر مبنی ویڈیوز کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔

اب یہ جماعت ’’جاپانی پہلے‘‘ کے قوم پرستانہ بیانیے کے ساتھ سامنے آئی ہے، جو غیر ملکیوں کے ’’خاموش قبضے‘‘ کے خلاف خبردار کرتی ہے۔ اس جماعت کے رہنما سوہی کامی یا کھلے عام سابق امریکی صدر کی بولڈ سیاست سے متاثر ہونے کا اظہار کر چکے ہیں۔

سان سیٹو کی کامیابی حکمران جماعت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو وزیرِ اعظم شی گیرو اشیبا کی قیادت میں اپنے قدامت پسند ووٹ بینک کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اشیبا کو بہت سے دائیں بازو کے ووٹر اس لیے مسترد کر رہے ہیں کیونکہ ان کے مؤقف سابق وزیرِ اعظم کے جتنے سخت گیر اور قوم پرستانہ نہیں ہیں۔

سان سیٹو نے مہنگائی، معیشت کی سست روی، اور غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی آمد پر عوامی غصے کو کامیابی سے استعمال کیا۔ جاپان میں غیر ملکیوں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، لیکن وہ ملک کی کل آبادی کا صرف تین فیصد ہیں، اس کے باوجود کئی جاپانی شہری انہیں مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔

اگرچہ سان سیٹو کے پاس اب بھی قانون سازی کی مکمل طاقت نہیں، لیکن اس کی فکری پیش قدمی اور عوامی مقبولیت جاپان کی سیاست میں دائیں بازو کی عوامی سوچ کی علامت بن چکی ہے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جاپان اب اس نظریاتی رجحان سے محفوظ نہیں رہا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos