ادارتی تجزیہ
وفاقی حکومت کی جانب سے سابق فاٹا میں جرگہ سسٹم کی بحالی کا منصوبہ ایک تشویشناک پیش رفت ہے، جو 2018 کی آئینی ترمیم کے بعد ہونے والی اصلاحات کو پلٹنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے ایک کمیٹی کی تشکیل، جس کی سربراہی وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کر رہے ہیں، آئینی اور سیاسی سطح پر گہرے خدشات کو جنم دے چکی ہے۔
جرگہ سسٹم، جو کہ ایک غیر رسمی اور قبائلی تنازعات کے حل کا طریقہ تھا، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد ختم کر دیا گیا تھا تاکہ وہاں کے عوام کو آئینی، عدالتی اور جمہوری نظام کے تحت مساوی حقوق میسر آئیں۔ مگر سات سال گزرنے کے باوجود نہ تو وعدہ شدہ 100 ارب روپے سالانہ ترقیاتی فنڈ دیے گئے، نہ ہی قومی مالیاتی کمیشن کے 3 فیصد حصے کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔
ان اقدامات کی بجائے اب جرگہ سسٹم کی بحالی کی کوششیں دراصل پرانے نوآبادیاتی نظام کو واپس لانے کے مترادف ہیں۔ یہ نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ خیبرپختونخوا حکومت کے اختیارات میں مداخلت بھی ہے، جس نے اس کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
فاٹا میں اصلاحات کا بنیادی مقصد دہشت گردی کے خاتمے، ریاستی عملداری کے قیام اور ترقیاتی عمل کو تیز کرنا تھا۔ لیکن موجودہ حکمت عملی کے تحت نہ صرف نظام عدل اور انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے بلکہ شدت پسندی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
ری پبلک پالیسی سمجھتی ہے کہ پرانے جرگہ نظام کی بحالی نہ صرف عوامی امنگوں کی نفی ہے بلکہ یہ دہشت گرد گروہوں کو ایک بار پھر فعال ہونے کا موقع دے سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اصلاحات کو تیز کرے، مالی وعدے پورے کرے اور قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانے کے عمل کو مستحکم بنائے۔ جرگہ نہیں، آئین اور انصاف ہی فاٹا کا مستقبل ہے۔