پنجاب میں مون سون بارشوں کے بعد دریائے راوی، چناب اور ستلج میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے جس کے باعث صوبائی حکومت نے فوج کو طلب کر لیا ہے۔ لاہور، قصور، سیالکوٹ، فیصل آباد، نارووال، اوکاڑہ اور سرگودھا میں ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری ہیں، جہاں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
Follow Republic Policy Website
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ عرفان علی نے تصدیق کی ہے کہ دریاؤں میں پانی کی سطح 2014 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ حکام کے مطابق 100 سے زائد ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں خوراک، طبی سہولتیں اور مویشیوں کے لیے جگہ فراہم کی گئی ہے۔ پنجاب حکومت نے متاثرہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ہنگامی اقدامات کے لیے 90 کروڑ روپے جاری کر دیے ہیں۔
Follow Republic Policy YouTube
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے دریائے راوی اور چناب کے کنارے آباد افراد کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کی ہے۔ شاہدرہ، پارک ویو اور موٹروے-2 کے نشیبی علاقوں میں پانی داخل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جبکہ فوج اور سول ادارے مسلسل ریلیف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
Follow Republic Policy Twitter
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ صورتحال 2022 کے تباہ کن سیلاب کی یاد تازہ کر رہی ہے جب ملک بھر میں 1,700 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ موجودہ بارشوں کا سلسلہ کم از کم 10 ستمبر تک جاری رہنے کا امکان ہے جس سے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
Follow Republic Policy Facebook
پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود کلائمیٹ چینج سے شدید متاثر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی، خشک سالی، غیر معمولی بارشیں اور مسلسل سیلاب اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کے لیے ماحولیاتی چیلنج محض ایک قدرتی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا بحران بھی ہے۔
یہ صورتحال ریاستی اداروں اور مقامی کمیونٹیز دونوں کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح مل کر جان و مال کا تحفظ کرتے ہیں۔ فوری اقدامات کے ساتھ ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی حکمت عملی ہی پاکستان کو ان بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔
Follow Republic Policy Instagram
ریلیف اور بحالی کے ان اقدامات میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین کو فوری مدد پہنچائی جا سکے اور آئندہ ایسے سانحات سے بچنے کے لیے پائیدار حکمت عملی وضع کی جا سکے۔