تحریک انصاف کا نجاتی راستہ — خالص سیاسی جدوجہد

[post-views]
[post-views]

طاہر مقصود

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس وقت اپنی سیاسی تاریخ کے اہم ترین اور نازک دور سے گزر رہی ہے۔ مسلسل ریاستی دباؤ، قیادت کی قید و بند کی صورتحال، تنظیمی بحران اور سیاسی تنہائی نے پارٹی کو ایک بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ تاہم، ان تمام مشکلات کے باوجود تحریک انصاف کے لیے واپسی کا دروازہ بند نہیں ہوا — لیکن اب صرف ایک ہی دروازہ باقی ہے: سیاسی، جمہوری اور نظریاتی جدوجہد کا۔

وہ تمام شارٹ کٹس، جو ماضی میں بعض جماعتوں یا شخصیات کو اقتدار تک پہنچانے میں معاون رہے، اب غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔ اسٹیب کی خاموش حمایت، خفیہ ملاقاتیں، یا بیرونی طاقتوں کے اشارے — یہ سب اب نہ صرف غیر متعلق ہو چکے ہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری کے بعد ناقابل قبول بھی بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف، اگر واقعی خود کو ایک عوامی، نظریاتی اور اصلاح پسند جماعت سمجھتی ہے، تو اسے سیاست کی اصل بنیادوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔

سب سے پہلا قدم پارٹی تنظیم کی بحالی ہے۔ موجودہ حالات میں پارٹی کی تنظیم کمزور، تقسیم شدہ اور ردِعمل پر مبنی ہو چکی ہے۔ ہر ضلع، ہر حلقے، ہر یونین کونسل میں باقاعدہ سیاسی تنظیمی ڈھانچہ قائم کرنا ہوگا۔ کارکنان کو صرف جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ سیاسی شعور، تربیت، اور مقصد سے جوڑنا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب قیادت خود نظریاتی، مستقل مزاج اور عوامی سطح پر متحرک ہو۔

عوامی تحریک، تحریک انصاف کے لیے زندگی کی علامت بن سکتی ہے۔ مگر صرف سوشل میڈیا پر مہمات چلانے سے عوامی مزاحمت نہیں بنتی۔ اصل طاقت تب ظاہر ہوتی ہے جب عام شہری پرامن، منظم اور مسلسل احتجاج کے ذریعے ریاستی پالیسیوں کو چیلنج کرے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام میدان میں اترے، طاقتور ترین قوتیں بھی پیچھے ہٹ گئیں۔ عمران خان کی سیاسی قوت کا انحصار عوام پر ہے — اور عوامی طاقت صرف اسی صورت ابھرتی ہے جب قیادت ذاتی فائدے سے بالاتر ہو کر نظریاتی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو۔

اگر عمران خان کسی ڈیل یا مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، تو یہ ان کے لیے وقتی سیاسی ریلیف تو فراہم کر سکتا ہے، لیکن پارٹی کے نظریاتی تشخص، کارکنوں کی وفاداری، اور عوامی اعتماد کے لیے ایک مہلک ضرب ہوگی۔ ماضی میں کئی جماعتوں نے ایسے سودے کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا بیانیہ، ان کی مقبولیت اور ان کا تنظیمی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ تحریک انصاف اگر بھی اسی راہ پر چلی، تو شاید دوبارہ خود کو منظم کرنا ممکن نہ ہو۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

تحریک انصاف کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ واقعی ایک انقلابی جماعت ہے یا پھر اقتدار کی ایک اور خواہشمند سیاسی قوت۔ اگر وہ پہلے نظریے پر کاربند ہے تو پھر اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر قسم کی مفاہمت، سمجھوتے اور ڈیل سے گریز کرے اور خالص جمہوری، اصولی اور عوامی جدوجہد پر قائم رہے۔ تنظیم، تربیت، عوامی رابطہ، مزاحمت اور نظریاتی شفافیت — یہی وہ ستون ہیں جو پی ٹی آئی کو نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ اسے دوبارہ اقتدار کی اہل بھی بنا سکتے ہیں۔

آج پاکستان میں جمہوریت کے لیے ایک واضح، مزاحم اور اصولی آواز کی ضرورت ہے۔ اگر تحریک انصاف اس خلا کو بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، تو اسے کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں — صرف عوام کی طرف۔ کیونکہ حقیقی طاقت، فیصلے کا اصل اختیار، اور اقتدار کا حقیقی سرچشمہ صرف عوام ہیں۔ اور جب تک تحریک انصاف اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی اور اس پر عمل نہیں کرتی، تب تک اقتدار اس کے لیے ایک سراب ہی رہے گا۔

یہی وقت ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت ایک واضح فیصلہ کریں: یا تو خالص سیاسی راستہ اختیار کریں، یا پھر تاریخ کے صفحات میں محض ایک وقتی مقبول جماعت بن کر رہ جائیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos