ٹرمپ اور نیتن یاہو کی ملاقات: غزہ کے معصوموں کے خون پر جشن؟

[post-views]
[post-views]

بلاول کامران

ایک طرف وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو کے درمیان عشائیہ جاری تھا، دوسری طرف غزہ کی سرزمین پر اسرائیلی افواج کی خونریزی اپنے عروج پر تھی۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جو عالمی اخلاقیات کے زوال کی علامت بن گیا — جہاں سفارتی مسکراہٹوں کے سائے میں ہزاروں معصوم جانیں روندی جا رہی تھیں۔

اس عشائیے کا سب سے بھیانک پہلو وہ لمحہ تھا جب نیتن یاہو نے ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا۔ ایک ایسا شخص جو برسوں سے نسلی نفرت، دیواریں، امیگریشن پابندیاں، اور عالمی اصولوں کی دھجیاں اڑانے کے لیے جانا جاتا ہے — اسے ’امن‘ کا علمبردار قرار دینا شاید اس دور کی سب سے بڑی سفارتی ستم ظریفی ہے۔

ادھر غزہ میں 21 ماہ سے جاری اسرائیلی حملے معصوم فلسطینیوں کی جانوں کا ناحق خون بہا رہے ہیں۔ ہزاروں مرد، خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں بے گھر، اور پورے کے پورے علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ مگر ان انسانی المیوں کے باوجود دنیا کی طاقتور قیادتیں ظالموں کو عزت و تکریم سے نواز رہی ہیں۔

نیتن یاہو نے اپنے بیانات میں واضح کر دیا کہ دو ریاستی حل کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ وائٹ ہاؤس میں اس نے صاف الفاظ میں کہا: “کبھی دوبارہ نہیں” — یعنی فلسطینیوں کے لیے ایک مکمل ریاست کا خواب اب دفن کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل کی سیکیورٹی ہمیشہ صرف اسرائیل کے ہاتھوں میں رہے گی۔ گویا، فلسطینی کسی بھی حقوق کے مستحق نہیں بلکہ اگر وہ سر اٹھائیں تو انہیں خون میں نہلا دینا اسرائیل کا ’حق‘ ہوگا۔

غزہ سے متعلق نیتن یاہو کا موقف اس سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ اس نے تجویز دی کہ غزہ کے تمام فلسطینیوں کو دیگر ممالک میں منتقل کر دیا جائے — ایک واضح نسلی صفائی کا منصوبہ۔ اس کے وزیر دفاع نے اس منصوبے کو مزید تفصیل سے بیان کیا کہ تمام فلسطینیوں کو رفح میں ایک حراستی کیمپ میں قید کیا جائے گا، پھر “انتہا پسندی سے نجات” کے عمل سے گزار کر انہیں دوسرے ممالک جانے پر “آمادہ” کیا جائے گا۔

یہ تمام بیانات دراصل ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا اور ہمیشہ کے لیے ان کی شناخت اور وجود کو مٹانا ہے۔ اس “آمادہ کرنے” کا مطلب بھوک، قتل، خوف اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک اسرائیلی حملوں میں 57,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لیکن برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے ماہرین کے مشترکہ سروے کے مطابق اصل ہلاکتیں 83,000 سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔ یہ صرف اعداد نہیں بلکہ ہر ہندسہ ایک انسانی زندگی ہے، ایک بچپن، ایک ماں، ایک خواب، جو ملبے تلے دفن ہو گیا۔

عالمی برادری کی خاموشی اس ظلم کو مزید طاقت بخش رہی ہے۔ اقوام متحدہ بے بس ہے، یورپی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، اور عرب ریاستیں عملی طور پر خاموش تماشائی ہیں۔ انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون، اخلاقیات — سب الفاظ کی حد تک رہ گئے ہیں۔

آج اسرائیلی صیہونیت اور نازی ازم کے درمیان مماثلت پر بحث ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ دونوں نظریات میں نسلی برتری، استحصال، اور دوسرے گروہوں کی مکمل تباہی کا تصور موجود ہے۔ نازیوں نے گیس چیمبرز بنائے، اور اسرائیلی ریاست غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ نازی ازم کو آج بھی دنیا لعنت بھیجتی ہے، لیکن جدید صیہونیت کو عالمی طاقتیں تخت پر بٹھاتی ہیں۔

یہی وہ تضاد ہے جس نے عالمی انصاف کے دعوے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مظلوم فلسطینی، خصوصاً غزہ کے رہنے والے، نہ صرف ایک ظالم ریاست کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں بلکہ دنیا کی بے حسی کے بھی شکار ہیں۔

لیکن ان تمام مظالم کے باوجود غزہ کے عوام نے ہار نہیں مانی۔ وہ اپنی زمین پر جینا چاہتے ہیں، مرنا چاہتے ہیں، مگر جلاوطنی قبول نہیں۔ ان کی مزاحمت فقط ہتھیار کی نہیں، بلکہ شعور، وقار اور انسانیت کی مزاحمت ہے۔

ٹرمپ اور نیتن یاہو کا عشائیہ دراصل اخلاقی زوال کی ایک زندہ تصویر ہے — جہاں ظالموں کو ایوارڈ دیے جا رہے ہیں اور مظلوموں کو دفن کیا جا رہا ہے۔ یہ منظر صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی بحران کا اعلان ہے۔

یہ وقت ہے کہ دنیا بھر کے انسان، ادارے، صحافی، اور باشعور شہری اس خاموشی کو توڑیں۔ کیونکہ اگر ہم نے اب بھی نہ بولے، تو ہم بھی اس خونریزی میں شریک سمجھے جائیں گے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا — وہ ظالموں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا مظلوموں کے لیے آواز بلند کرے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos