مبشر ندیم
پاکستانی اسٹاک ایکسچینج کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی کارکردگی کو آج کل معاشی استحکام کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اخبارات، نیوز چینلز اور سرکاری بیانات میں اسے “معاشی بحالی” اور “سرمایہ کاری کے بڑھتے رجحان” کا ثبوت قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹاک ایکسچینج کا یہ مصنوعی عروج پاکستان کے عام شہری کے روزمرہ مسائل — غربت، مہنگائی اور بے روزگاری — کو کم کرنے میں کوئی حقیقی کردار ادا کر رہا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کا معیشت سے تعلق موجود ضرور ہے، لیکن یہ تعلق ہمیشہ براہ راست یا جامع نہیں ہوتا۔ اسٹاک مارکیٹ کا فائدہ عام طور پر بڑے سرمایہ کاروں، کمپنیوں، بینکوں اور مالیاتی اداروں تک محدود رہتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس پہلے ہی سرمایہ، رسائی اور معلومات موجود ہیں، اور جو مارکیٹ کی اتار چڑھاؤ سے منافع کمانا جانتا ہے۔ عام آدمی، جس کی روزمرہ زندگی آٹے، دال اور بجلی کے بل سے شروع ہو کر بچوں کی فیس اور دوائیوں پر ختم ہوتی ہے، اس کے لیے اسٹاک مارکیٹ کا اوپر جانا ایک غیر متعلقہ اور دور کا خواب ہے۔
اگر ہم یہ کہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کی ترقی سے غربت میں کمی آئے گی، تو یہ دعویٰ محض ایک مفروضہ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور کروڑوں افراد غذائی قلت، صحت کی سہولیات کی کمی اور تعلیمی عدم دستیابی جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ اس پس منظر میں، صرف چند سو یا ہزار پوائنٹس کی مارکیٹ میں تیزی نہ تو ان کا چولہا جلا سکتی ہے، نہ ان کے لیے روزگار پیدا کر سکتی ہے۔
مزید یہ کہ اسٹاک مارکیٹ اکثر قیاس آرائی، افواہوں اور محدود سرمائے کی گردش پر چلتی ہے۔ یہ حقیقی معیشت — یعنی زراعت، صنعت، تعلیم، صحت اور روزگار — کی مضبوطی سے منسلک نہیں ہوتی، بلکہ اکثر اس کے برعکس، حقیقی معیشت کے زوال کے دوران بھی مارکیٹ اوپر جاتی نظر آتی ہے، کیونکہ چند سرمایہ کار ادارہ جاتی خریدار بن کر مارکیٹ کو وقتی سہارا دے رہے ہوتے ہیں۔
اگر اسٹاک مارکیٹ واقعی ایک مثبت اشارہ ہے، تو ہمیں یہ بھی دکھانا ہوگا کہ اس کے اثرات عوامی سطح پر کس طرح منتقل ہو رہے ہیں۔ کیا کسی فیکٹری میں نئی بھرتیاں ہوئی ہیں؟ کیا دیہاتی علاقوں میں بنیادی سہولیات میں بہتری آئی ہے؟ کیا مہنگائی کم ہوئی ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے، تو پھر مارکیٹ کی تیزی ایک معاشی سراب ہے، جس کا عام آدمی سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بھی ایک قابلِ غور حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والا طبقہ بمشکل ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یعنی 99 فیصد سے زائد پاکستانیوں کی زندگی پر اس مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہٰذا یہ تصور کہ اسٹاک مارکیٹ کی بلندی معاشی بہتری کا پیمانہ ہے، زمینی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
اصل معاشی بہتری تب آئے گی جب کسان کو اپنی فصل کا مناسب معاوضہ ملے گا، جب مزدور کو باعزت روزگار میسر آئے گا، جب تعلیم اور صحت سب کے لیے قابلِ رسائی ہوں گی، اور جب نوجوان کو اپنے ملک میں اپنے خواب پورے کرنے کا موقع ملے گا — نہ کہ صرف نیوز ہیڈلائنز میں خوش کن اعداد و شمار سے۔
پاکستان کو ایک ایسے معاشی بیانیے کی ضرورت ہے جو محض “مارکیٹ انڈیکس” پر نہ چلے، بلکہ حقیقی انسانی فلاح، سماجی انصاف اور مساوی ترقی کی بنیاد پر استوار ہو۔ جب تک اسٹاک ایکسچینج کی بلندی کا فائدہ عام آدمی کے چولہے تک نہیں پہنچتا، تب تک یہ ترقی صرف اشرافیہ کے کاغذی خواب ہی رہے گی — اور عوام کے لیے ایک خاموش اذیت۔