ڈاکٹر شبانہ صفدر خان
پاکستان اس وقت ایک سنگین غذائی بحران کی لپیٹ میں ہے، جو صرف صحت عامہ تک محدود نہیں بلکہ ریاستی بدانتظامی، معاشرتی بے حسی، مذہبی انحطاط اور کاروباری بے ایمانی جیسے کئی گہرے اور پیچیدہ پہلوؤں پر محیط ہے۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان اور اب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں غیر معیاری، غیر حلال اور گدھے کے گوشت کی فروخت کے شرمناک واقعات ایک نہ ختم ہونے والی تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ گوشت کے یہ جعلی دھندے صرف انسانی جسم کو نہیں بلکہ پورے معاشرتی اور دینی نظام کو آلودہ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ بحران کیوں جنم لے رہا ہے، اس کے ذمہ دار کون ہیں، اور اس سے نجات کیسے ممکن ہے؟
پنجاب فوڈ اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے وقتی طور پر کارروائیاں ضرور کرتے ہیں۔ کبھی گدھے کے گوشت کی بھاری مقدار پکڑی جاتی ہے، کبھی مردہ جانوروں کے گوشت سے بھرے فریزر برآمد ہوتے ہیں، اور کبھی گوشت کے سپلائی چین میں ملوث عناصر کو حراست میں لیا جاتا ہے۔ لیکن جب ان کارروائیوں کا تسلسل نہیں بنتا، اور وہ محض خبروں کی زینت بن کر رہ جاتی ہیں، تو واضح ہوتا ہے کہ یہ اقدامات نظامی نہیں، نمائشی ہیں۔ ریاستی ذمہ داری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ فوڈ سیفٹی کا نظام صرف ری ایکٹیو نہ ہو، بلکہ اس میں پروایکٹیو نگرانی، جدید سائنسی لیبارٹریز، آزاد انسپیکشن میکانزم اور فوری قانونی کارروائی کے عناصر شامل ہوں۔ جب تک ادارے آزاد، خودمختار اور بااختیار انداز میں کام نہیں کریں گے، اور ان پر سیاسی یا مالی دباؤ نہیں ہٹایا جائے گا، خوراک کی فراہمی محفوظ نہیں بنائی جا سکتی۔
یہ بحران صرف حکومتی ناکامی نہیں بلکہ ایک گہرے معاشرتی بحران کی علامت بھی ہے۔ عوامی رویے، صارفین کی لاعلمی، اور مذہبی اقدار سے غفلت نے غیر حلال اور غیر معیاری گوشت کو بازاروں کا معمول بنا دیا ہے۔ ایک عام صارف جب صرف سستی قیمت کو معیار سمجھتا ہے، اور گوشت کی حلال یا غیر حلال حیثیت سے صرفِ نظر کرتا ہے، تو وہ خود بھی اس جرم میں شریک ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف معاشرے میں ایسی تربیت کا فقدان ہے جو لوگوں کو خوراک کے دینی اور اخلاقی اصولوں سے آگاہ کرے۔ دین اسلام میں حلال خوراک کو انسان کی روحانی اور جسمانی تطہیر کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں حرام گوشت کی ممانعت صرف فقہی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک سماجی نظم و ضبط کا حصّہ ہے۔ مگر جب والدین خود بچوں کے لیے باہر سے فاسٹ فوڈ لاتے ہیں، جب شادیوں میں غیر تصدیق شدہ کیٹرنگ کو معمول سمجھا جاتا ہے، اور جب میڈیا پر حرام و حلال کی تمیز مذاق بن جائے، تو پھر یہ معاشرہ اجتماعی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔
غیر حلال گوشت کا کاروبار ایک خالص مجرمانہ فعل ہے، جس کا محرک صرف مالی لالچ ہے۔ کچھ عناصر صرف چند ہزار روپے زیادہ منافع کی خاطر گدھوں، مردار جانوروں یا بیمار مویشیوں کا گوشت انسانی خوراک کے طور پر بیچنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ محض جرم نہیں بلکہ خیانت ہے — اللہ کے احکام کے ساتھ، معاشرتی اعتماد کے ساتھ اور صارفین کے حق کے ساتھ۔ اس گراوٹ کی بڑی وجہ دینی تربیت کی کمی، اخلاقی تعلیم کا فقدان اور قانون کی گرفت کا کمزور ہونا ہے۔ ایک ایسا تاجر جو دین کے نام پر دکان سجاتا ہے، مگر حرام گوشت فروخت کرتا ہے، وہ صرف قانون کا نہیں بلکہ دین کا بھی مجرم ہے۔ یہ صورتحال صرف پولیس کی کارروائی سے نہیں بدلے گی، بلکہ کاروباری برادری کو اپنی صفوں میں ایسے عناصر کی نشاندہی اور اخراج کا عمل خود شروع کرنا ہوگا۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
ہر مہذب قوم اپنی خوراک اور اس کے معیار کے حوالے سے حساس ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں خوراک کو فقط ذائقہ یا قیمت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ حلال، صاف، اور غذائیت سے بھرپور خوراک کے اصولوں کو نظر انداز کرنا اب معمول بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مارکیٹوں میں صفائی کا فقدان، غیر تصدیق شدہ ذبح خانے، اور باسی گوشت کا دھڑلے سے کاروبار ہو رہا ہے۔ خوراک کی اس ثقافت کا زوال صرف خوراک کے شعبے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہماری مجموعی تہذیبی، اخلاقی اور دینی زوال کا غماز ہے۔ جب ہم خوراک کے معاملات میں لاپروائی برتیں گے، تو اس کے اثرات نہ صرف جسمانی بیماریوں بلکہ سماجی بیماریوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوں گے۔
اس سنگین بحران سے نکلنے کے لیے ریاست، معاشرہ اور فرد کی مشترکہ ذمہ داری ناگزیر ہے۔ ریاستی سطح پر خوراک سے متعلقہ قوانین کو از سر نو تشکیل دے کر سخت سزاؤں کا تعین کیا جائے، فوڈ سیفٹی اتھارٹیز کو سیاسی مداخلت سے آزاد، بااختیار اور خودمختار ادارے بنایا جائے، ہر ذبح خانے، گوشت فروش اور سپلائی چین کو رجسٹریشن، تربیت اور نگرانی کے نظام سے منسلک کیا جائے، اور خوراک سے متعلق دینی و اخلاقی شعور کے لیے باقاعدہ قومی مہم چلائی جائے۔ اسی طرح معاشرتی سطح پر علما، اساتذہ، والدین، اور میڈیا کو چاہیے کہ خوراک کے دینی، صحت بخش اور تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کریں۔ فرداً فرداً ہر شہری کو اپنی اور اپنے خاندان کی خوراک کے بارے میں ذمہ داری اور احتیاط کا رویہ اپنانا ہوگا۔ گھروں میں کھانا پکانے کی روایت کو فروغ دیا جائے، تصدیق شدہ اور حلال ذرائع سے خوراک خریدی جائے، اور کسی بھی مشکوک کاروبار کی فوری اطلاع متعلقہ حکام کو دی جائے۔ صرف اس صورت میں ہم ایک صحتمند، بااخلاق اور باایمان معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں گے جہاں خوراک نہ صرف جسم کی توانائی بلکہ روح کی پاکیزگی کا ذریعہ بنے۔