ظفر اقبال
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اس وقت جمہوریت اور آمریت کی کشمکش سب سے اہم بحث بن چکی ہے۔ اس بحث کی بنیاد ایک ناقابل تردید حقیقت پر قائم ہے: پاکستان کے وفاق کی بقاء اور سلامتی اس بات سے جڑی ہوئی ہے کہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد ہو۔ اگر طاقت کا سرچشمہ عوام نہ ہوں، تو نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ ریاست کی وحدت اور قومی یکجہتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
پاکستان کا آئینی ڈھانچہ اس اصول پر قائم ہے کہ ریاست کی طاقت عوام سے نکل تی ہے ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری تاریخ اس وعدے کی مسلسل پامالی سے بھری پڑی ہے۔ غیر منتخب اداروں کی مداخلت، انتخابی عمل کی بندر بانٹ، کمزور جمہوری ادارے، اور طاقت کے غیر آئینی مراکز نے عوام کے حق حکمرانی کو محدود اور بے معنی بنا دیا ہے۔ یہی عمل آج پاکستان کو ایک سنگین دوراہے پر لے آیا ہے۔ فیصلہ اب یہ ہونا ہے کہ کیا طاقت اب بھی پس پردہ قوتیں طے کریں گی، یا یہ اختیار واقعی عوام کو لوٹایا جائے گا؟
شفاف، منصفانہ اور بروقت انتخابات اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت بن چکے ہیں۔ جب تک عوام کو ان کا نمائندہ خود چننے کا مکمل حق نہیں ملے گا، اس وقت تک نہ جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ وفاق قائم رہ سکتا ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جو پہلے ہی احساس محرومی کا شکار ہیں—بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے بعض حصے—وہ وفاق کو ایک اجنبی اور مسلط کردہ نظام سمجھتے ہیں، نہ کہ ایک رضاکارانہ شراکت۔
جمہوریت صرف اقتدار کا طریقہ نہیں بلکہ قومی یکجہتی کا ذریعہ ہے۔ یہ مختلف قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کو ایک اجتماعی نظام میں جوڑتی ہے جہاں ہر فرد اور ہر علاقے کو مساوی آواز اور نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے کثیر القومی ملک کے لیے جمہوریت محض ایک آپشن نہیں، بلکہ ایک ناگزیر شرط ہے۔ وفاق کو طاقت یا خوف سے نہیں، بلکہ عوام کی رضامندی اور شمولیت سے قائم رکھا جا سکتا ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
یہ رضامندی صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب انتخابات شفاف، غیر جانبدار اور آزاد ہوں۔ افسوس کہ حالیہ برسوں میں ہونے والے انتخابات نے اعتماد بڑھانے کے بجائے شکوک و شبہات میں اضافہ کیا ہے۔ دھاندلی کے الزامات، ناپسندیدہ جماعتوں کے خلاف کارروائیاں، اور غیر منتخب اداروں کی مداخلت نے انتخابی عمل کو داغدار کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ حکومتیں مستحکم ہیں، نہ نظام پر عوام کو اعتماد ہے، اور نہ وفاق میں ہم آہنگی موجود ہے۔
“عوامی رائے” محض ایک نعرہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ جب عوام محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں، فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں، اور نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں، تو وہ نظام سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یہ لاتعلقی ایک ایسی بے یقینی کو جنم دیتی ہے جو نہ صرف معاشی مسائل کو بڑھاتی ہے بلکہ انتہاپسندی اور ریاستی نظام سے بیزاری کا راستہ بھی کھولتی ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقات—چاہے وہ سیاسی ہوں یا عسکری—کو سمجھنا ہوگا کہ وفاق کی مضبوطی کا دارومدار کسی مرکزیت، جبر یا مصنوعی سیاسی بندوبست پر نہیں، بلکہ عوام کی شراکت اور اعتماد پر ہے۔ حقیقی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب نظام کو عوام کی رضامندی حاصل ہو، اور وہ رضامندی صرف آزادانہ انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
آئینِ پاکستان 1973 ایک واضح وفاقی خاکہ فراہم کرتا ہے، جس میں صوبوں کو خودمختاری حاصل ہے، اور مرکز کو ان کی رضامندی سے چلایا جانا چاہیے۔ لیکن جب انتخابات مشکوک ہوں اور جمہوری حکومتوں کو غیر منتخب ادارے غیر مستحکم کریں، تو یہ وفاقی نظام کھوکھلا ہو جاتا ہے۔
لہٰذا اگر ہم واقعی پاکستان کے وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں انتخابات کو ہی طاقت کی منتقلی کا واحد اور مقدس ذریعہ تسلیم کرنا ہوگا۔ تمام ریاستی اداروں—عدلیہ، فوج اور بیوروکریسی—کو انتخابی عمل میں مکمل غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو آزاد اور خودمختار بنایا جائے تاکہ وہ کسی دباؤ یا مداخلت کے بغیر شفاف انتخابات کروا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی، عدلیہ کی خودمختاری، اور سول سوسائٹی کا فعال کردار بھی لازمی ہے۔ اختلاف رائے کا گلا گھونٹنا، میڈیا پر پابندیاں لگانا، اور اپوزیشن کو نشانہ بنانا جمہوریت کا قتل ہے۔ یہ سب وقتی مفاد کے لیے شاید فائدہ مند ہو، مگر ریاستی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔
انتخابات کا بروقت انعقاد بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ سی کیورٹی، معیشت یا کسی بھی انتظامی بہانے سے انتخابات کو مؤخر کرنا صرف عوامی اعتماد کو مزید کمزور کرتا ہے اور غیر جمہوری قوتوں کو کھلا میدان دے دیتا ہے۔ آئین میں درج انتخابی مدت کی پاسداری ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔
یہ بحران صرف قانونی یا سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ جمہوریت ایک اخلاقی تصور ہے جس کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ ریاست عوام کی ملکیت ہے، اور صرف عوام ہی اس کے فیصلے کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جب یہ حق غیر منتخب قوتوں کے سپرد ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ عوامی وقار کی توہین بھی۔
پاکستان کو اگر ایک متحد، مستحکم اور باوقار جمہوری ریاست بننا ہے تو اسے عوامی نمائندگی کے اصول پر مکمل اعتماد کرنا ہو گا۔ یہ صرف انتخابات کی بات نہیں، بلکہ ریاست اور شہری کے رشتے کی بحالی کی بات ہے۔ جب تک عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار واپس نہیں دیا جائے گا، نہ وفاق مضبوط ہوگا، نہ ریاست محفوظ۔
یقیناً پاکستان کو اس وقت بہت سے چیلنجز درپیش ہیں—معاشی، سیاسی، سی کیورٹی اور سماجی۔ مگر ان سب کا بنیادی حل یہی ہے کہ نظام کو عوام کی مرضی کے تابع بنایا جائے۔ اور یہ صرف ایک راستے سے ممکن ہے: شفاف، آزاد اور بر وقت انتخابات۔
آخر میں بات صرف اتنی ہے کہ کسی ریاست کو ٹینک، توپ یا قوانین نہیں بچاتے، بلکہ عوام کا اعتماد بچاتا ہے۔ اور یہ اعتماد نہ زبردستی حاصل کیا جا سکتا ہے، نہ مصلحتوں سے، بلکہ صرف جمہوری طریقے سے۔ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے: وہ مصنوعی بندوبست کو جاری رکھے گا یا عوام کو حقِ حکمرانی دے کر وفاق کو حقیقی معنوں میں زندہ کرے گا؟
فیصلہ واضح ہے، وقت کم ہے، اور خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اب عوام کی رائے کو عزت دیجیے، کیونکہ وہی پاکستان کے وفاق کی اصل ضمانت ہے۔