ادارتی تجزیہ
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص ظلم سہہ کر خاموش رہتا ہے تو اُسے “صابر” اور “نیک” کہا جاتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے، اُسے فوراً “بدتمیز”، “فسادی” یا “فتنہ انگیز” قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ ایک اجتماعی ذہنی بیماری کی عکاسی کرتی ہے۔
صبر یقیناً ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے، لیکن صبر کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان ظلم سہتا رہے اور ظالم کے خلاف لب کشائی نہ کرے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ایمان کی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ “ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے”۔ اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں جو ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، اُسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُسے بغاوت اور بدتہذیبی سے جوڑا جاتا ہے۔
گھریلو تشدد، سرکاری اداروں میں ناانصافی، یا سیاسی جبر کا شکار افراد جب اپنی داستان سناتے ہیں تو معاشرہ اُنہیں خاموش رہنے، صبر کرنے یا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس رویے سے ظلم کرنے والوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور وہ بے خوف ہو کر اپنے مظالم جاری رکھتے ہیں۔
ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا بدتمیزی نہیں بلکہ ایک سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو ظالم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، نہ کہ اُنہیں تنہا کر دیں۔ ایک زندہ اور باشعور معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں مظلوم کو بولنے کی اجازت دی جائے، نہ کہ اُسے خاموشی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو یہ سکھائیں کہ سچ بولنا گستاخی نہیں بلکہ غیرت ہے، اور انصاف مانگنا فتنہ نہیں بلکہ فرض ہے۔