اداریہ
حالیہ میچ کے بعد بھارتی کرکٹ ٹیم کی جانب سے اپنے حریف کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے انکار نے ایک سنگین بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ طرزِ عمل محض ایک علامتی قدم نہیں بلکہ کھیلوں میں سیاست کے بڑھتے ہوئے عمل دخل پر تشویش ناک سوالات اٹھاتا ہے۔ کرکٹ ہمیشہ سرحدوں سے بالاتر ہو کر دوستی، بھائی چارے اور باہمی احترام کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن جب سیاسی دشمنی کھیل کے میدان پر غالب آجائے تو کھیل کی اصل روح متاثر ہوتی ہے۔
کھیلوں میں اسپورٹس مین اسپرٹ صرف جیت یا ہار تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ باہمی احترام اور عاجزی جیسے رویوں میں جھلکتی ہے۔ ایک سادہ مصافحہ محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ یہ مشترکہ محنت، باہمی عزت اور صحت مند مقابلے کی پہچان ہے۔ بھارت کے اس انکار نے نہ صرف کھیل کی قدروں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ سیاسی ترجیحات کھیل کی عالمی اقدار پر غالب آسکتی ہیں۔
اس رویے پر بین الاقوامی کھیلوں کے حلقوں سے تنقید سامنے آچکی ہے۔ ممالک، ادارے اور شائقین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا بھارت کا یہ رویہ اسے عالمی اسپورٹس کمیونٹی میں تنہا کر دے گا؟ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں کرکٹ محض کھیل نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور جذباتی پہچان ہے، جو روایتی حریفوں کو بھی ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ لیکن جب کھلاڑی احترام کے بجائے سیاسی دشمنی کو ترجیح دیتے ہیں تو کرکٹ اپنی وحدت کی علامتی حیثیت کھو دیتی ہے۔
عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ بھی اس وقت متاثر ہوتی ہے جب کھیل کو سیاست پر قربان کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی ادارے، بشمول آئی سی سی، بارہا اس اصول پر زور دے چکے ہیں کہ کھیل کے میدان کو سیاسی تنازعات سے پاک رکھا جائے۔ اس اصول کی خلاف ورزی نہ صرف بھارت کے امیج کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے جس سے کرکٹ کا عالمی وقار مجروح ہوسکتا ہے۔
آخرکار، میچ کے بعد مصافحے سے انکار بظاہر معمولی لگ سکتا ہے، لیکن کھیلوں کی سفارت کاری کے عالمی تناظر میں یہ ایک بہت بڑا منفی اشارہ ہے۔ بھارت کا یہ فیصلہ کرکٹ کی اس روایت کو مجروح کرتا ہے جو ہمیشہ شائستگی اور عزت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ دنیا میں جہاں کھیل فاصلے کم کرنے اور دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہیں، وہاں ایسے اقدامات صرف خلیج کو بڑھاتے ہیں۔













