پاکستان کے عسکری و سوویلین حکمرانوں کی میراث: ایک تنقیدی جائزہ

[post-views]
[post-views]

ارشد محمود اعوان

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ چاہے حکمران سوویلین ہو یا عسکری، اس کی حکمرانی کے اثرات اور اس سے جڑی (وراثت) ریاست اور معاشرے پر دیرپا اثرات چھوڑتی ہے۔ ریاستی تاریخ میں طاقت کے استعمال، وفاقی ڈھانچے کی کمزوری اور معاشرتی تقسیم کو ہمیشہ حکمرانی کے انداز سے جوڑا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکمران کی میراث کا تنقیدی جائزہ نہ صرف تاریخ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ مستقبل کے حکمرانوں کے لیے بھی اس میں سبق پوشیدہ ہے۔

ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں

ایوب خان اور یحییٰ خان کی میراث پاکستان کی فوجی آمریت کے ابتدائی ادوار میں ایوب خان اور یحییٰ خان کی حکمرانی سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان دونوں کی حکمرانی کی اصل میراث یہ رہی کہ ان کے دور کے بعد پاکستان دو لخت ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک قومی سانحہ تھا جس نے وفاقی ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اس تجربے نے یہ ثابت کیا کہ جب ایک وفاقی ریاست کو طاقت، آمریت اور غیر جمہوری فیصلوں سے چلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ وفاقی اکائیوں کی بیگانگی اور ریاستی ڈھانچے کے انہدام کی صورت میں نکلتا ہے۔ ان کی میراث نے پاکستان میں اس اصول کو واضح کر دیا کہ وفاق صرف شفاف جمہوری اصولوں اور عوامی نمائندگی سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔

ریپبلک پالیسی یوٹیوب فالو کریں

جنرل ضیاء الحق کی میراث پاکستان کی تاریخ میں جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کو انتہا پسندی اور شدت پسندی کے فروغ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ضیاء کے اقتدار سے پہلے پاکستانی معاشرہ نسبتاً آزاد خیال، متوازن اور ترقی پسند رجحانات رکھتا تھا، مگر ضیاء کے دور میں مذہب کو ریاستی طاقت کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کے نام پر حدود آرڈیننس، شرعی عدالتوں اور زکوٰۃ و عشر کے نظام نے معاشرتی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں معاشرہ ایک خاص نظریاتی اور فرقہ وارانہ تقسیم کی طرف دھکیلا گیا۔

افغان جہاد کو اسلامی فریضہ قرار دے کر ریاستی اداروں نے عسکریت پسندی کو فروغ دیا اور جہادی و کلاشنکوف کلچر پاکستان میں سرایت کر گیا۔ اس کا خمیازہ آج تک پاکستانی معاشرہ بھگت رہا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی جڑیں ضیاء کے دور میں ہی مضبوط ہوئیں۔ ان کی میراث اس حقیقت کی علامت ہے کہ مذہب کے سیاسی استعمال نے نہ صرف معاشرے کی فکری سمت بدل دی بلکہ ریاستی اداروں کی ساکھ اور جمہوریت کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کیا۔

ریپبلک پالیسی ٹوئٹر فالو کریں

جنرل پرویز مشرف کی میراث جنرل پرویز مشرف کا دور بھی طاقت کے ذریعے ریاست چلانے کی ایک مثال ہے۔ اگرچہ انہوں نے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کا نعرہ لگایا، مگر ان کی پالیسیوں نے بلوچستان میں شورش کو جنم دیا۔ بلوچ عوام کی محرومیاں بڑھیں اور ریاستی طاقت کے استعمال نے انہیں وفاق سے مزید دور کر دیا۔ ان کی حکمرانی کی سب سے بڑی میراث بلوچستان کی وہ بغاوت ہے جو آج بھی شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔

مشرف کے دور میں آئین کی معطلی اور سیاسی انجینئرنگ نے وفاقی جمہوریت کو کمزور کیا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو کچھ حقوق واپس ملے، مگر بلوچستان کے زخم اتنے گہرے ہو چکے تھے کہ آج بھی غیر بلوچوں کے لیے صوبے میں جگہ محدود ہے اور بلوچ قیادت بار بار اپنی آئینی حیثیت پر سوال اٹھاتی ہے۔ یہ لیگیسی ثابت کرتی ہے کہ طاقت اور مرکزی کنٹرول وفاقی اکائیوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔

ریپبلک پالیسی فیس بک فالو کریں

سول حکمرانوں کی ناکامی یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاکستان کے سول حکمرانوں کی میراث کیا ہے؟ بدقسمتی سے ملک کی سیاسی تاریخ اس حقیقت سے بھری ہوئی ہے کہ کوئی بھی منتخب سول حکمران اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ یہ صورت حال وفاقی اکائیوں میں بداعتمادی اور عوام میں مایوسی کو ظاہر کرتی ہے۔ سول حکومتوں نے بھی عوامی نمائندگی اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کے بجائے اقتدار کے کھیل اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ سول حکمران بھی ایک مضبوط اور مثبت لیگیسی قائم کرنے میں ناکام رہے۔

ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک فالو کریں

میراث کا سبق پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا تنقیدی مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر حکمران کی حکمرانی کا اثر ریاست اور معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان نے وفاق کو طاقت کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ ملک کے ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔ ضیاء الحق نے مذہب کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جس نے معاشرے کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا۔ پرویز مشرف نے طاقت کے زور پر بلوچستان کو دبانے کی کوشش کی جس نے صوبے کو مزید وفاق سے دور کیا۔ اور سول حکمران ادارہ جاتی اصلاحات کے بجائے اقتدار کی سیاست میں الجھے رہے جس سے عوام کا اعتماد مزید ٹوٹا۔

ریپبلک پالیسی انسٹاگرام فالو کریں

پاکستان کے لیے یہ وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے کہ حکمران اپنی کے حوالے سے سنجیدہ ہوں۔ حکمرانی کا اصل معیار صرف طاقت یا وقتی مقبولیت نہیں بلکہ ایسا آئینی اور جمہوری ڈھانچہ ہے جو وفاقی ریاست کو مضبوط کرے، عوام کو اعتماد فراہم کرے اور ریاستی اداروں کو متوازن بنائے۔ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا تو میراث کا یہ بحران مستقبل میں بھی ریاست کے لیے خطرات پیدا کرتا رہے گا۔

ریپبلک پالیسی واٹس ایپ فالو کریں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos