پاکستان میں نئی سیاسی جماعتوں کی افزائش: جمہوریت کے ساتھ ایک سنگین مذاق

[post-views]
[post-views]

حسیب نیازی

پاکستان کا آئین ہر شہری کو آزادیِ اظہار، اجتماع اور سیاسی جماعت بنانے کا بنیادی حق دیتا ہے، اور یہ جمہوریت کی بنیادوں میں شامل ہے۔ اسی اصول کے تحت حال ہی میں ریحام خان نے “پاکستان ریپبلک پارٹی” کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ یہ عمل آئینی طور پر درست ہے، لیکن اس سے ایک اہم سوال جنم لیتا ہے: کیا صرف خواہش یا شہرت کی بنیاد پر ہر شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہونا چاہیے؟ یا اس عمل کے لیے کچھ سنجیدہ شرائط اور اصول متعین کیے جانے چاہییں؟

جمہوریت صرف آزادیوں کا نام نہیں، بلکہ ان آزادیوں کے ذمے دارانہ استعمال کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں غیر سنجیدہ، غیر تجربہ کار یا محض شہرت کے متلاشی افراد کے ہاتھوں بنیں، تو یہ نہ صرف جمہوری نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ سیاست کو بھی مذاق بنا دیتی ہیں۔ اس لیے نئی جماعتوں کے قیام کے لیے کچھ بنیادی اصولوں کا ہونا وقت کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلا اصول “سیاسی تجربہ” ہونا چاہیے۔ محض سوشل میڈیا، شہرت یا جذباتی نعروں کی بنیاد پر جماعت بنانے کا رجحان خطرناک ہے۔ ایک جماعت اس وقت ہی سنجیدہ سمجھی جا سکتی ہے جب اس کے بانی افراد کو سیاسی نظام، پارلیمانی طریقہ کار، عوامی مسائل، اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی حقیقی سمجھ ہو۔

دوسرا اصول “عوامی بنیاد” ہے۔ ایک مستند سیاسی جماعت وہی ہو سکتی ہے جو گلی، محلے، یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر عوام سے جڑی ہو۔ جو عوام کے ساتھ رابطے میں ہو، ان کے مسائل سے آگاہ ہو، اور مقامی سیاست میں متحرک کردار ادا کر رہی ہو۔ بغیر عوامی بنیاد کے سیاسی جماعت محض ایک شخصی برانڈ بن کر رہ جاتی ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

تیسرا اہم نکتہ “تنظیمی ڈھانچہ” ہے۔ ایک سنجیدہ جماعت کا منشور، نظریہ، تربیت یافتہ کارکنان، پالیسی سازی کے فورمز، شفاف مالیاتی نظام، اور داخلی احتساب کا نظام ہونا ضروری ہے۔ ایسی جماعتیں جو صرف ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہیں، دیرپا نہیں ہوتیں اور نظام سیاست کو کمزور کرتی ہیں۔

چوتھا اصول “قانونی و اخلاقی ساکھ” ہے۔ سیاسی جماعت بنانے والوں کی شہرت، دیانتداری، اور شفاف ماضی انتہائی اہم ہے۔ جعلی ڈگریوں، کرپشن یا مشکوک مالی ذرائع سے منسلک افراد جب سیاسی جماعتیں بناتے ہیں تو عوام کا سیاست سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

ان مسائل کے پیش نظر پاکستان کو ایک منظم ضابطہ کار کی ضرورت ہے تاکہ نئی سیاسی جماعتوں کے اندراج اور کارکردگی کو جانچا جا سکے۔ اس ضابطہ میں درج ذیل شرائط شامل کی جا سکتی ہیں:

  1. سیاسی جماعت کے بانیوں کے پاس کم از کم پانچ سال کا سیاسی یا سماجی تجربہ ہو۔
  2. جماعت کے قیام سے قبل تین سال تک نچلی سطح پر عوامی سرگرمیوں میں شمولیت کا ثبوت ہو۔
  3. تنظیمی خاکہ، منشور، فنڈنگ کا شفاف نظام، اور اندرونی احتساب کے اصول پیش کیے جائیں۔
  4. کم از کم دو اضلاع میں جماعت کی عوامی حمایت کا ثبوت ہو، مثلاً رجسٹرڈ کارکنان یا مقامی سطح پر کامیاب مہمات۔
  5. انتخابات میں حصہ لینے سے قبل الیکشن کمیشن جماعت کی ادارہ جاتی اہلیت کی جانچ کرے۔

یہ نکات سیاسی آزادی پر پابندی نہیں بلکہ جمہوریت کی مضبوطی اور سنجیدگی کی طرف قدم ہیں۔ اگر ہر شخص محض میڈیا کوریج یا احتجاج کی بنیاد پر جماعت بناتا رہا تو سیاسی نظام بدنظمی، بے سمتی اور غیر سنجیدگی کا شکار ہو جائے گا۔

عوام کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی شعور کے ساتھ ایسے رجحانات کو رد کریں جو سیاست کو صرف تفریح، تماشا یا ذاتی تشہیر کا ذریعہ بناتے ہیں۔ سیاسی جماعت بنانا ایک قومی ذمہ داری ہے، نہ کہ وقتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا ہتھیار۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں جمہوریت پہلے ہی مختلف دباؤ کا شکار ہے، وہاں صرف ایک باخبر، منظم اور عوامی حمایت یافتہ سیاسی نظام ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ لہٰذا، اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندراج اور انتخابی عمل کے لیے ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جو تجربہ، ساکھ اور عوامی بنیاد پر مبنی ہو۔ یہی طریقہ پاکستان میں سیاست کو سنجیدہ، مستحکم اور جمہوری بنا سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos