اداریہ | ریپبلک پالیسی تھنک ٹینک
۱۳ جون کو ایران کی عسکری اور جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے نے عالمی سطح پر شدید تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایران کے خلاف ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا کہ تہران جوہری معاہدے کی شرائط پر پوری طرح عمل نہیں کر رہا۔ اگرچہ اسرائیل نے باضابطہ طور پر اس قرارداد کو حملے کا جواز نہیں بنایا، لیکن اس نے قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے “بہت دیر سے اٹھایا گیا ایک ضروری قدم” قرار دیا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جوہری نگران ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے خود کہا کہ ایران کے خلاف کسی بھی جوہری ہتھیار کی تیاری کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ تاہم اسرائیل اور امریکہ نے اس قرارداد کو ایک ایسے حملے کے لیے استعمال کیا، جو نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ اخلاقی اصولوں پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے اس قرارداد کو ایران پر حملے کا جواز بنایا، بالکل اسی طرح جیسے ۲۰۰۳ء میں عراق کے خلاف جعلی “مہلک ہتھیاروں” کے الزام پر حملہ کیا گیا تھا۔ ایران کی جانب سےسے تعاون معطل کرنے کا پارلیمانی بل، ایک دفاعی اقدام سے زیادہ ایک سیاسی احتجاج بن گیا ہے، جو مغربی دوہرے معیار کے خلاف شدید ردعمل ہے۔
گروسی پر اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بننے کی خواہش میں مغربی طاقتوں کے ساتھ ہم آہنگی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ وہی ایجنسی ہے جس نے ۲۰۲۳ء میں جاپان کے فُوکوشیما پلانٹ سے تابکار پانی کے اخراج کو بھی درست قرار دیا، حالانکہ علاقائی ممالک اور ماحولیاتی حلقوں نے سخت مخالفت کی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا نے عراق کے بعد کچھ سیکھا؟ اگر نہیں، تو مفروضوں کی بنیاد پر جنگ چھیڑنے کا خطرہ ایک بار پھر ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔ ایران کو ضرور جوابدہ بنایا جائے، لیکن انصاف، سچ اور امن کی قیمت پر نہیں۔