عمران حفیظ
پاکستانی سیاست میں عمومی توجہ قیادت، انتخابی حکمتِ عملی اور قانون سازی کے منصوبوں پر مرکوز رہتی ہے، مگر ایک پہلو جو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ سیاسی کارکنان کا کردار ہے — وہ افراد جو جماعتوں کی فکری، تنظیمی اور عملی بنیاد ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنان کا تقابلی جائزہ ایک اہم حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان نہ صرف مختلف ہیں بلکہ پاکستان میں ایک جمہوری اور نظریاتی سیاسی کلچر کے نمائندہ بھی بنتے جا رہے ہیں۔
تاریخی طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا سیاسی ڈھانچہ مرکزی اور موروثی قیادت پر مبنی رہا ہے۔ ان جماعتوں کے اندر فیصلے بالا سطح پر ہوتے ہیں اور کارکنان سے مشاورت کی بجائے انہیں محض اطلاع دی جاتی ہے۔ بیشتر کارکنان شخصیت پرستی اور مفاداتی سیاست کے تحت وابستہ ہوتے ہیں، اور قیادت سے اختلاف کو بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس، تحریکِ انصاف کے کارکنان گزشتہ ایک دہائی میں ایک نظریاتی تحریک کا حصہ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی وابستگی کسی فرد واحد سے نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی، شفافیت اور ریاستی نظام میں اصلاح کے ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کی قیادت میں بھی درجہ بندی موجود ہے، مگر کارکنان کی سطح پر تنقیدی سوچ، مکالمے کی روایت اور پارٹی پالیسی پر اثراندازی کی گنجائش زیادہ ہے۔
ایک اہم فرق فیصلہ سازی کے عمل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں فیصلے اشرافیہ تک محدود ہوتے ہیں جبکہ تحریک انصاف میں کارکنان سوشل میڈیا، احتجاجی سرگرمیوں اور عوامی فورمز کے ذریعے اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور بعض اوقات قیادت کے فیصلوں کو چیلنج بھی کرتے ہیں۔ اس سے جماعت میں نیچے سے اوپر کی طرف دباؤ پیدا ہوتا ہے جو ایک جمہوری عمل کی علامت ہے۔
ریاستی جبر کے مقابلے میں تحریک انصاف کے کارکنان نے جس نظریاتی عزم، ہمت اور قربانی کا مظاہرہ کیا ہے وہ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں نایاب مثال ہے۔ گرفتاریوں، تشدد، میڈیا بلیک آؤٹ اور مقدمات کے باوجود کارکنان نے پیچھے ہٹنے کے بجائے اپنے نظریے کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا۔
یہ استقامت ماضی میں پیپلز پارٹی کے کارکنان میں بھی نظر آتی تھی، خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں۔ تاہم، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کا نظریاتی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا اور ذاتی مفاد پر مبنی سیاست نے جگہ لے لی۔ آج کا پیپلز پارٹی کارکن زیادہ تر سیاسی بقا کی علامت بن چکا ہے۔
Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
تحریکِ انصاف کے کارکنان کی سب سے نمایاں خوبی ان کی سیاسی شعور ہے۔ وہ صرف پارٹی معاملات میں ہی نہیں بلکہ آئینی، عدالتی، سماجی اور ریاستی امور پر بھی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ وہ نوجوان، شہری، تعلیم یافتہ اور ڈیجیٹل طور پر فعال ہیں، جو انہیں روایتی سیاسی پابندیوں سے آزاد کر کے ایک متحرک سیاسی مکالمے کا حصہ بناتے ہیں۔
اس کے برعکس، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارکنان عمومی طور پر قیادت کی ہر بات کو حتمی سمجھ کر دہراتے ہیں۔ اس سے نہ صرف داخلی جمود پیدا ہوتا ہے بلکہ قیادت اور کارکنان کے درمیان فکری فاصلہ بھی بڑھتا ہے۔
تحریک انصاف کا سیاسی کلچر — جو بڑی حد تک اس کے کارکنان نے تشکیل دیا ہے — شفافیت، تنقید، مکالمہ اور احتساب پر مبنی ہے۔ اگرچہ جماعت خود بھی کئی تضادات کا شکار ہے، مگر اس کے کارکنان نے سیاسی میدان میں ایک نئی زبان اور ایک نیا طرزِ سیاست متعارف کرایا ہے جو اصلاح، خود احتسابی اور رائے کی آزادی پر قائم ہے۔
اگر یہ رویہ جاری رہا تو نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پورے ملک کی سیاست میں جمہوری رویوں کو فروغ مل سکتا ہے۔ ایسی جماعتیں جن کے کارکن سوال اٹھانے، تنقید کرنے اور قیادت کو جواب دہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں، وہی اصل جمہوریت کی محافظ ہوتی ہیں۔
آخر میں، تحریک انصاف کے کارکن صرف حمایتی نہیں بلکہ سیاسی شراکت دار ہیں، جو نہ صرف جماعت کی سمت متعین کرتے ہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تقدیر میں بھی ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
—
سیاسی تجزیے اور معیاری مواد کے لیے ملاحظہ کریں:
📌 www.republicpolicy.com
#تحریک_انصاف #سیاسی_شعور #نظریاتی_سیاست #جمہوریت #RepublicPolicy