ظفر اقبال
پاکستان کے قرضوں کی صورتِ حال ایک سنگین مالی بحران کی عکاسی کرتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین بلیٹن کے مطابق گزشتہ مالی سال میں حکومت نے 9.3 کھرب روپے کا نیا قرض حاصل کیا جس سے جون کے اختتام پر مجموعی سرکاری قرض بڑھ کر 80.5 کھرب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً روزانہ 25.4 ارب روپے کا قرض لیا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف ’’مالیاتی ذمہ داری اور قرض کی حد بندی کا قانون‘‘ میں متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی ہے بلکہ بجٹ کے ڈھانچے کو بھی غیر متوازن بناتی ہے، کیونکہ سود کی ادائیگیاں زیادہ تر وسائل کو کھا جاتی ہیں۔
قرضوں میں مسلسل اضافہ محض عددی پیمانے پر نہیں بلکہ قومی معیشت کے حجم کے مقابلے میں بھی بڑھ رہا ہے۔ قرض سے جی ڈی پی کا تناسب ایک سال میں 67.8 فیصد سے بڑھ کر 70.2 فیصد ہو جانا تشویشناک امر ہے۔ یہ نہ صرف گزشتہ سال حاصل ہونے والی عارضی بہتری کو زائل کرتا ہے بلکہ محصولات اور اخراجات کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق، مالی خسارے کی مستقل موجودگی اور ریاست کی ترقیاتی صلاحیت کے زوال کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
اس بڑھتے ہوئے قرض کے نتیجے میں حکومت کی مالی گنجائش شدید حد تک سکڑ گئی ہے، جس کا اثر حالیہ تباہ کن سیلاب جیسے بحرانوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ لاکھوں متاثرین کو مدد فراہم کرنے کی ریاستی صلاحیت محدود ہے جبکہ عالمی برادری کا ردعمل بھی غیر تسلی بخش رہا۔ نتیجتاً متاثرہ خاندان اپنے نقصانات کا بوجھ خود اٹھانے پر مجبور ہیں، جو دراصل مسلسل مالی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔
سیلاب سے نہ صرف کھڑی فصلیں مثلاً کپاس، چاول، گنا اور سبزیاں تباہ ہوئیں بلکہ لائیو اسٹاک کے لیے چارہ اور دیہی معیشت کی بنیادیں بھی متاثر ہوئیں۔ بنیادی ڈھانچے مثلاً سڑکیں، پل، نہریں اور مکانات ملیامیٹ ہوگئے جن کی بحالی کے لیے اربوں روپے درکار ہیں، جبکہ ریاست کے پاس یہ وسائل دستیاب نہیں۔
اس صورتحال نے پاکستان کو دوبارہ بیرونی امداد اور قرضوں کا محتاج بنا دیا ہے۔ تاہم عالمی امدادی اداروں کا سرد رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حتیٰ کہ اگر امداد فراہم بھی کی گئی تو وہ مطلوبہ ضرورت پوری نہیں کرسکے گی۔ نتیجتاً حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو محدود داخلی وسائل کو منتقل کرے، جو آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں، یا مزید قرض لے کر پہلے سے بلند قرضوں کے پہاڑ میں اضافہ کرے۔ دونوں صورتوں میں عوام خصوصاً متاثرین ہی نقصان اٹھائیں گے۔
یہ امر تسلیم کرنا ہوگا کہ قرضوں کا بحران محض معاشی نہیں بلکہ سیاسی و حکمرانی کا بھی مسئلہ ہے۔ جب بجٹ کی سمت اور مالی پالیسی عوامی نمائندہ اداروں کے بجائے بین الاقوامی قرض دہندگان طے کریں تو جمہوری احتساب کمزور ہو جاتا ہے اور ریاستی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کی معاشی پائیداری اسی وقت ممکن ہے جب ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے، غیر پیداواری اخراجات کم کیے جائیں اور وسائل کو انسانی ترقی و سماجی بہبود پر مرکوز کیا جائے۔
مختصر یہ کہ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ پاکستان کے لیے محض عددی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی اور خودمختاری کا سوال بن چکا ہے۔ اگر سیاسی قیادت نے فوری اصلاحات نہ کیں تو مستقبل کی نسلیں اس بدانتظامی کا خمیازہ بھگتیں گی۔ اس وقت انتخاب واضح ہے: یا پائیدار اصلاحات کی جائیں یا پھر قرض، بحران اور انحصار کے دائمی چکر میں پھنسے رہیں۔