اداروں کی مضبوطی: ریاستِ پاکستان کی بقا کا واحد راستہ

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

ریاستیں صرف جغرافیائی حدود، پرچم یا قومی ترانوں سے نہیں بنتیں بلکہ وہ اپنے اداروں کے ذریعے وجود، وقار اور ترقی حاصل کرتی ہیں۔ جب یہی ادارے کمزور، بے اختیار یا مخصوص مفادات کے تابع بنا دیے جائیں تو ریاست نہ صرف اپنی سمت کھو دیتی ہے بلکہ زوال کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ یہاں ریاستی ادارے، جو کہ معاشرتی، انتظامی اور عدالتی نظم و نسق کے ستون ہیں، مسلسل زبوں حالی کا شکار ہیں۔

ترقی یافتہ اقوام نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ حقیقی ترقی وہی ہے جو اداروں کے استحکام، خودمختاری اور غیر جانبداری سے جنم لیتی ہے۔ صرف سڑکیں، پل اور عمارتیں بنانا ترقی نہیں، بلکہ ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جو ہر شہری کو مساوی مواقع، انصاف، اور فیصلہ سازی میں شرکت دے۔ یہ کام صرف اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب ادارے طاقتور افراد کے تابع نہیں بلکہ قانون و انصاف کے تابع ہوں۔

ماہرینِ معیشت ڈیرن ایسی موگلو اور رابن سن نے اپنی کتاب قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں میں واضح کیا ہے کہ کامیاب ریاستیں وہی ہوتی ہیں جہاں “شراکت دارانہ ادارے” موجود ہوں — یعنی وہ ادارے جو ہر فرد کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ اس کے برعکس “استحصالی ادارے” صرف طاقتور طبقے کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بیشتر ادارے اسی استحصالی طرزِ عمل کا شکار ہیں — جہاں عدلیہ سے لے کر بیوروکریسی تک، میڈیا سے لے کر احتساب کے اداروں تک، سب کسی نہ کسی سیاسی یا غیر سیاسی دباؤ میں آ کر اپنی غیر جانب داری کھو بیٹھے ہیں۔

بیوروکریسی، جو کسی بھی ریاست میں پالیسیوں پر عملدرآمد کا مرکزی ستون ہوتی ہے، یہاں تبادلوں، سیاسی دباؤ، اور عدم تحفظ کے باعث اپنی فعالیت کھو چکی ہے۔ عدلیہ کے متنازع فیصلے، احتساب کے اداروں کا جانبدارانہ استعمال، اور انتخابی عمل کی غیر یقینی صورتحال عوامی اعتماد کو بری طرح متاثر کر چکی ہے۔ یہی حال میڈیا کا ہے، جو سنسرشپ، صحافیوں کی گرفتاریوں، اور دباؤ کے باعث ایک فعال نگران کے بجائے محض حکومتی ترجمان بن کر رہ گیا ہے۔

جب تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی آزاد نہ ہوں تو معاشرہ فکری طور پر بانجھ ہو جاتا ہے۔ سوچنے، سوال کرنے اور اصلاح کی آوازیں دبنے لگتی ہیں اور سرکاری بیانیہ ہی واحد سچ بن کر عوام پر مسلط ہو جاتا ہے۔ یہی وہ رجحان ہے جو آج پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے، جہاں غیر منتخب قوتیں بھی اداروں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر کے ریاستی توازن کو تہ و بالا کر رہی ہیں۔

عالمی تجربات بھی یہی بتاتے ہیں کہ وہی ریاستیں کامیاب ہوئیں جنہوں نے اپنے اداروں کو مضبوط کیا۔ جنوبی کوریا کی مثال سامنے ہے، جو 1960 کی دہائی میں پاکستان کی طرح ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ مگر اس نے تعلیمی اصلاحات، صنعتی ترقی اور بیوروکریسی کی غیر جانبداری کو فروغ دے کر آج دنیا کی کامیاب معیشتوں میں جگہ بنائی۔ فن لینڈ نے عدلیہ اور تعلیم کو بااختیار بنا کر کرپشن پر قابو پایا۔ افریقی ملک روانڈا، جو ایک خونی نسلی تصادم کا شکار ہوا، وہاں بھی ریاستی اداروں کو ازسرنو ترتیب دے کر مثالی ترقی حاصل کی گئی — اور اس کی بنیاد تھی ایک منصفانہ نظامِ عدل، دیانت دار بیوروکریسی اور شفاف حکمرانی۔

پاکستان جیسے ملک، جہاں آبادی بڑھ رہی ہو، وسائل محدود ہوں اور بین الاقوامی مسابقت بڑھ رہی ہو، وہاں کمزور ادارے ریاست کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جاتے ہیں۔ ناکارہ ادارے سرمایہ کاروں کا اعتماد ختم کرتے ہیں، پالیسیوں میں تسلسل ختم ہوتا ہے، اور عوامی خدمات کا معیار گرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ریاست سے بیگانہ ہو جاتے ہیں، احتجاج، بغاوت اور مایوسی پروان چڑھتی ہے، اور پھر ریاست کا نظم و ضبط کمزور پڑنے لگتا ہے۔

ایسے حالات میں محض شخصیات یا وقتی حل کافی نہیں ہوتے۔ اگر پاکستان کو ایک منصف، باوقار اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے تو ہمیں اداروں کی اصلاح کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ تمام فریقین — عوامی نمائندے، عدلیہ، عسکری قیادت، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ — کو ایک نئے عمرانی معاہدے پر متفق ہونا ہوگا، جس کی بنیاد اداروں کی خودمختاری، شفافیت، اور پیشہ ورانہ کارکردگی پر ہو۔

ترقی کا راستہ شخصی فیصلوں یا وقتی نعروں سے نہیں، بلکہ مضبوط، فعال اور آزاد اداروں سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہی وہ ستون ہیں جن پر ایک پائیدار اور باوقار ریاست کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos