مدثر رضوان
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ سنایا ہے جو نکاح کے معاہدے میں مرد و عورت کے مساوی حقوق کے اصول کو تقویت دیتا ہے۔ یہ فیصلہ ایک طلاق یافتہ جوڑے کی اپیل سے متعلق ہے جس میں فریقین نے نکاح نامے میں درج مہر کی شق پر اختلاف کیا تھا۔ خاتون درخواست گزار نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نکاح نامے کی مبہم شقوں کی تشریح مرد کے حق میں کی جائے کیونکہ وہ معاہدے کی زیادہ تر ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ تاہم، عدالتِ عظمیٰ نے اس تشریح کو مسترد کرتے ہوئے ریاست کو ہدایت کی کہ نکاح نامے کو عام فہم بنایا جائے اور اس کی رجسٹری میں ایسے رجسٹرار مقرر کیے جائیں جو دیانتدار اور باشعور ہوں، تاکہ نکاح نامے کے فریقین، بالخصوص خواتین، کے حقوق محفوظ رہیں۔
یہ فیصلہ اس تناظر میں غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے کہ نکاح محض ایک شخصی معاہدہ نہیں بلکہ ایک سماجی، قانونی اور معاشی بندھن بھی ہے، جو مہر، نان نفقہ، وراثت اور شہری حیثیت جیسے اہم امور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عدالت نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ نکاح نامے میں ابہام کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، اور یہ کہ بیشتر خواتین نکاح کے وقت اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتیں۔ اسی بنا پر، طاقت کا توازن مرد کے حق میں جھک جاتا ہے، جس سے صنفی انصاف مجروح ہوتا ہے۔
عدالت کا یہ مشاہدہ نہایت بروقت ہے کہ نکاح نامہ صرف مذہبی رسم نہیں، بلکہ قانونی دستاویز ہے، اور اس میں موجود شقیں اگر واضح، جامع اور متوازن نہ ہوں تو وہ خواتین کے خلاف ایک قانونی ہتھیار بن سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نکاح سے قبل مرد و عورت کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے اور نکاح خواں کے لیے تربیت اور اخلاقی احتساب کا نظام وضع کیا جائے۔ یہ افراد صرف رسمی کردار ادا نہ کریں بلکہ فریقین کے درمیان معاہدے کو شعور کے ساتھ مکمل کرائیں۔
فیصلے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ نکاح نامے کی شرائط طے کرنے کا اختیار صرف خاندان کے مرد افراد تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ آج کے ترقی یافتہ اور قانون پسند معاشرے میں عورت کو اس کا اختیار واپس دینا ہوگا کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں میں شریک ہو۔ نکاح کی شرائط، جیسے مہر کی مقدار، طلاق کا حق، علیحدگی کے اختیارات، اور رہائش و نان نفقے سے متعلق نکات میں عورت کی مرضی اور آگاہی کو مقدم رکھنا ناگزیر ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
سپریم کورٹ نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ اگر نکاح کے عمل سے قبل میڈیکل ٹیسٹ کو لازم قرار دیا جائے تو اس سے جینیاتی یا پیدائشی بیماریوں کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک جدید اور سائنسی سوچ ہے جو روایتی طرز عمل سے ہٹ کر انسانی فلاح پر مبنی ہے۔ نکاح کے ساتھ صحت، تحفظ اور شعور کو جوڑنا ایک سماجی بہتری کی راہ ہموار کرے گا۔
اس وقت پاکستان میں نکاح خواہوں کے نظام میں کئی خامیاں موجود ہیں۔ بہت سے رجسٹرار غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، بعض اوقات رشوت اور دباؤ میں کام کرتے ہیں، اور اکثر اوقات نکاح نامے میں خواتین کے تحفظ کے لیے شامل کی گئی شقیں یا تو نظرانداز کر دی جاتی ہیں یا رضامندی کے بغیر نکال دی جاتی ہیں۔ اس عمل کو روکنے کے لیے قانونی اصلاحات ناگزیر ہیں، تاکہ نکاح خواں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے، اور نکاح نامے کی ہر شق کو فریقین کی باہمی رضامندی سے تحریری شکل دی جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ، حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے حقوق سے متعلق شعور بیدار کرے۔ تعلیمی اداروں، مساجد، میڈیا اور سماجی مراکز کے ذریعے ایسی آگاہی مہمات چلائی جائیں جن میں نکاح نامے کی شقوں کی اہمیت، طلاق کے حقوق، مہر کی نوعیت اور مالی تحفظ کی وضاحت کی جائے۔ جب تک خواتین کو ان کے قانونی اختیارات کا شعور نہیں ہوگا، وہ نہ صرف کمزور فریق رہیں گی بلکہ استحصال کا شکار بھی بنتی رہیں گی۔
آخر میں، عدالت کا یہ فیصلہ صرف ایک مقدمے تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرتی، قانونی اور مذہبی نظام کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ عورت کے حقوق کو محض رسمی بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے تحفظ دینا ہوگا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نکاح نامے کو ایک جامع، عادل اور شفاف دستاویز بنایا جائے، جو دونوں فریقین کے حقوق کو مساوی تحفظ دے اور عورت کو وہ مقام دلائے جس کی ضمانت اسلام، آئین اور انسانیت دیتی ہے۔ اس فیصلے کو محض ایک عدالتی حکم نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک اصلاحی موقع کے طور پر بروئے کار لایا جائے۔