غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ عرب یا دیگر ممالک اس مجوزہ بین الاقوامی فورس میں اپنے فوجی بھیجنے پر راضی ہوں گے یا نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے، جب کہ اسرائیل نے بھی فورس کی تشکیل اور اختیارات پر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی فوجیوں کو غزہ پٹی میں بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، تاہم وہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ ممکنہ شمولیت کے حوالے سے بات چیت کر رہی ہے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے کہا کہ “ہم اپنی سلامتی کے خود ذمہ دار ہیں، اور یہ فیصلہ بھی ہم ہی کریں گے کہ بین الاقوامی فورسز میں کون سے ممالک کی افواج قابلِ قبول ہوں گی اور کون سی نہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ “یہ پالیسی امریکا کے لیے بھی قابلِ قبول ہے، جس کی تصدیق اس کے اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں واضح طور پر کی ہے۔”
یاد رہے کہ اسرائیل گزشتہ دو برس سے غزہ میں فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اب بھی اس علاقے کے زیادہ تر داخلی و خارجی راستوں پر قابض ہے۔
گزشتہ ہفتے نیتن یاہو نے ترکی کی ممکنہ شمولیت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے اسرائیلی کارروائیوں پر شدید تنقید کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فورس میں صرف وہ ممالک شامل ہونے چاہییں جن پر اسرائیل کو اعتماد ہو۔ انہوں نے مزید بتایا کہ واشنگٹن غزہ کے مستقبل سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد یا کسی بین الاقوامی معاہدے کی تیاری پر غور کر رہا ہے، اور اس ضمن میں قطر سے مذاکرات جاری ہیں۔













