اداریہ
پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ ریاستی فیصلے ہمیشہ عوامی نمائندوں کے بجائے غیر منتخب افراد اور ادارے کرتے رہے ہیں۔ اس غیر آئینی طرزِ عمل کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے — کبھی اقتصادی بحران کی صورت میں، کبھی سی کیورٹی کے خطرات میں، اور کبھی عالمی سطح پر تنہائی کی شکل میں۔
آئینِ پاکستان بالکل واضح ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور عوام اس اختیار کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پر خارجہ پالیسی، سی کیورٹی فیصلے، عالمی معاہدے، حتیٰ کہ جنگ و امن جیسے حساس معاملات بھی چند غیر منتخب افراد کے ہاتھ میں رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل نے پارلیمان کو بے اختیار، کابینہ کو نمائشی، اور عوام کو لاتعلق بنا دیا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی بحران “اختیارات کا غیر آئینی ارتکاز” ہے۔ جب ریاست کے وہ ادارے جو آئینی طور پر معاون کردار کے لیے بنائے گئے تھے، اصل فیصلہ ساز بن جائیں، تو جمہوریت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ مشاورت، شفافیت اور عوامی تائید جمہوریت کا حسن ہے، جسے بارہا دبایا گیا ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
اس غیر نمائندہ حکمرانی کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں سامنے آیا ہے — دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، قرضوں کے معاہدے ہوں یا عالمی شراکت داریاں، عوام کو ان فیصلوں میں کبھی شامل نہیں کیا گیا، لیکن ان کے نتائج عوام کو ہی بھگتنا پڑے۔
اگر پاکستان کو ایک باوقار، مستحکم اور خودمختار ریاست بنانا ہے، تو فیصلوں کا مرکز پارلیمان ہونا چاہیے۔ ہر پالیسی، ہر حکمتِ عملی، اور ہر فیصلہ عوام کی رائے اور نمائندوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ آئینی جمہوریت صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک نظام ہے — اور جب تک فیصلے عوام کے ذریعے نہیں ہوں گے، پاکستان نہ اندرونی طور پر مستحکم ہو سکے گا اور نہ ہی عالمی سطح پر باوقار۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم عوام پر اعتماد بحال کریں، اور طاقت کو اس کے اصل منبع — عوام — کی طرف لوٹائیں۔ یہی راستہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔