ایک سال، دو فیصلے: چینی پر تجربات کی مہنگی قیمت

[post-views]
[post-views]

تحریر: مبشر ندیم

پاکستان کی حالیہ چینی برآمد و درآمد پالیسی ملکی معیشت میں پالیسی سازی کی غیر یقینی، تکنیکی کمزوری، اور فیصلہ سازی میں بااثر طبقات کے اثر و رسوخ کی ایک اور واضح مثال بن کر سامنے آئی ہے۔ ایک ہی مالی سال میں پہلے 765,000 ٹن چینی برآمد کرنے اور پھر 750,000 ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ محض ایک اقتصادی تجربہ نہیں بلکہ اس سے جڑا ریاستی نظم و نسق، پالیسی کا عدم تسلسل، اور عوامی فلاح سے لاپرواہی کی ایک مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔

بظاہر برآمدات سے حاصل ہونے والے 114 ارب روپے کے زرمبادلہ کو ایک مالی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے اثرات مقامی سطح پر نہ صرف مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوئے بلکہ چینی جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی گئی۔ چینی کی فی کلو قیمت میں 50 روپے سے زائد اضافہ نہ صرف ایک معاشی بوجھ تھا بلکہ اس نے حکومتی ترجیحات پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔

حکومتی دعویٰ تھا کہ برآمد کی اجازت اس وقت دی گئی جب چینی کی مقامی پیداوار ملکی ضروریات سے زائد تھی، لیکن چند ہی مہینوں میں درآمد کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یا تو ان اعداد و شمار میں سنگین خامیاں تھیں، یا پھر پالیسی سازی کی بنیاد کسی منظم تجزیے کی بجائے چند مخصوص مفادات کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس عمل سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ ملکی پالیسی سازی میں اب بھی مفادات کا ٹکراؤ ایک بڑا چیلنج ہے، جہاں فیصلہ ساز خود بھی ان شعبوں کے حصہ دار ہیں جن پر وہ پالیسی نافذ کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ محض ایک مالیاتی یا زرعی معاملہ نہیں بلکہ ریاستی گورننس کی بنیادوں کو جھنجھوڑ دینے والا مسئلہ ہے۔ اگر پالیسی سازوں کے پاس ملکی ذخائر، مقامی مانگ اور بین الاقوامی قیمتوں کا کوئی مربوط، سائنسی اور قابلِ بھروسا تجزیہ موجود ہوتا تو نہ برآمد کی اجازت دی جاتی، نہ ہی بعد ازاں مہنگے داموں درآمد کی نوبت آتی۔ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ متاثر وہ عوام ہوئے جن کے لیے چینی صرف خوراک کا حصہ نہیں بلکہ ایک روزمرہ ضرورت ہے، خاص طور پر نچلے اور متوسط طبقے کے لیے۔

یہ بحران ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے پالیسی ادارے محض کاغذی تخمینوں اور وقتی سیاسی فائدے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ جس رفتار سے فیصلے بدلے گئے، اس سے معیشت میں غیر یقینی پیدا ہوئی، اور مارکیٹ کے وہ عناصر متحرک ہو گئے جو ایسے مواقع پر ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرتے ہیں۔ حکومت ان حرکات کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی، اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے نے اس بات کی وضاحت کی کہ برآمد کی اجازت دینے والوں اور درآمد کے فیصلے کے پیچھے موجود افراد میں کیا تعلق تھا۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر برآمدات سے حاصل شدہ زرمبادلہ ملکی معیشت کو فائدہ پہنچا رہا تھا، تو اس کا کوئی حصہ چینی کی قیمت مستحکم رکھنے یا عوام کو سبسڈی فراہم کرنے میں کیوں نہ استعمال ہوا؟ آخر عوام نے وہ قیمت کیوں ادا کی جس کا فائدہ مخصوص گروہوں کو حاصل ہوا؟

یہ بحران اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ریاستی فیصلہ سازی کے نظام میں شفافیت کی شدید کمی ہے، اور جب تک پالیسی سازی میں پارلیمانی نگرانی، آزاد ماہرین کی شمولیت، اور مفادات کے ٹکراؤ کو روکنے کے لیے مضبوط قانونی ڈھانچے نہیں بنائے جاتے، تب تک ایسے “پالیسی تجربات” عوام کے لیے مہنگے اور تکلیف دہ ہی رہیں گے۔

عوام بار بار اس المیے کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے روزمرہ کے مسائل، جیسے خوراک، ایندھن، تعلیم اور صحت، ان پالیسیوں کی نذر ہو جاتے ہیں جو چند خاندانوں، چند کمپنیوں یا مخصوص حلقوں کے معاشی مفادات کو تحفظ دیتی ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف اقتصادی انصاف کی نفی کرتی ہے بلکہ ریاست پر اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہے۔

معیشت کسی خلا میں نہیں چلتی، وہ عوامی توقعات، ریاستی ذمہ داری اور طویل المدتی حکمت عملی کے درمیان ایک مسلسل توازن کا تقاضا کرتی ہے۔ چینی کی برآمد اور پھر درآمد کے فیصلے نے یہ توازن بری طرح بگاڑ دیا ہے۔

لہٰذا اس وقت محض انتظامی اصلاحات کی نہیں بلکہ بنیادی معاشی پالیسی کے ڈھانچے میں شفافیت، جوابدہی اور عوامی مفاد کو مرکزیت دینے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر، ہم بار بار اسی طرح کے بحرانوں میں الجھے رہیں گے، جن کا مالی فائدہ چند ہاتھوں میں جائے گا، اور قیمت ہمیشہ عوام ادا کریں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos