آمنہ یوسف
بلوچستان میں حالیہ قتل عام، جس میں نو بے گناہ مسافروں کو صرف “پنجابی” شناخت کی بنیاد پر بے دردی سے قتل کیا گیا، پاکستان میں نسلی بنیادوں پر بڑھتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کی سنگین نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حملہ صرف ایک مجرمانہ واقعہ نہیں بلکہ ایک گہری سازش کی کڑی ہے جس میں بیرونی دشمن، خاص طور پر بھارت کی خفیہ ایجنسیاں، بلوچستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دشمن عناصر پاکستان کے مختلف قومیتی گروہوں کے درمیان نفرت پیدا کر کے ریاستی یکجہتی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
یہ واقعہ کسی پہلا واقعہ نہیں۔ بلوچستان میں ایسے کئی واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں، جہاں پنجابی، سندھی یا دیگر غیر بلوچ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح متعدد بلوچ نوجوان بھی ماورائے عدالت قتل یا لاپتہ کیے جانے کی شکایات لے کر سامنے آئے ہیں۔ یہ سب واقعات ریاستی نااہلی اور کمزور حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد چند دہشت گردوں کو مار کر خاموشی اختیار کر لینا ایک وقتی اقدام ہوتا ہے جو مسئلے کی جڑ کو نہیں چُھوتا۔
بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ ایک طرف ریاستی ادارے طاقت کا غیر مؤثر استعمال کر رہے ہیں، تو دوسری طرف مقامی سردار اور قبائلی رہنما اپنے ذاتی مفادات کے لیے عوام کو بلیک میل کرتے رہے ہیں۔ اصلاحات کے نام پر پھیلائے گئے فسادات نے بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں میں بے چینی، بے یقینی اور غصہ بھر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی رٹ نہ صرف کمزور ہوئی بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ بھی بڑھتا گیا۔
حیرت انگیز طور پر پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی اس بحران پر خاموش دکھائی دیتی ہیں۔ نہ کوئی قومی اسمبلی میں بھرپور بحث کرتا ہے، نہ کوئی سنجیدہ سیاسی پالیسی سامنے آتی ہے۔ قوم سوال کر رہی ہے کہ کب اور کہاں سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں نسلی قتل عام پر غور کیا؟ بلوچ قیادت، جو کبھی عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتی تھی، آج کیوں غیر مؤثر ہو چکی ہے؟ اس سیاسی خلا نے غیر ریاستی عناصر کو جگہ دی ہے جنہوں نے عوامی بیانیہ کو دہشت، خوف اور نفرت سے بھر دیا ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
بلوچستان میں امن قائم کرنے کے لیے محض عسکری کارروائیاں کافی نہیں۔ ریاستی طاقت کو سیاسی حکمت عملی، سماجی انصاف اور عوامی شمولیت کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار، اور مثبت بیانیہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ انتہا پسندی کے بجائے قومی دھارے کا حصہ بن سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عوام کے دل و دماغ جیتے جا سکیں۔
دشمن کی سازشیں اپنی جگہ، مگر جب تک ریاست خود اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرے گی، دشمن فائدہ اٹھاتا رہے گا۔ بیرونی مداخلت کی روک تھام صرف فوجی آپریشن سے ممکن نہیں، بلکہ داخلی اتحاد، انصاف اور شفافیت کے ذریعے ہی اسے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، اور اس کو وفاقی نظام میں باعزت مقام دینا ریاست کا فرض ہے۔
آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ریاستی طاقت اگر سیاسی سوجھ بوجھ سے خالی ہو، تو وہ نہ صرف ناکام ہوتی ہے بلکہ مزید نفرت جنم دیتی ہے۔ بلوچستان میں بہتا ہوا خون صرف ایک صوبے کا مسئلہ نہیں، یہ پورے پاکستان کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام سیاسی، عسکری اور سماجی ادارے مل کر بلوچستان میں دیرپا امن، ترقی اور انصاف کے لیے متحد ہوں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان ایک مضبوط، پُرامن اور متحد ریاست بن سکتا ہے۔