عمر کے مختلف مراحل: ایک فکری جائزہ

[post-views]
[post-views]

انسانی زندگی مختلف ادوار پر مشتمل ایک مسلسل سفر ہے، اور ہر عمر کا ایک خاص رنگ اور معنی ہوتا ہے۔ عمومی طور پر بچپن کو زندگی کا سب سے حسین اور بے فکری کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہوتا ہے۔ نیند، ہنسی، رونا، سب کچھ فطری انداز میں اور بنا کسی الجھن کے ہوتا ہے۔ تاہم جب بچوں سے اُن کی خواہشات کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور اکثر ان کی یہ خواہش سامنے آتی ہے کہ وہ جلد از جلد بڑے ہو جائیں۔ اس عمر میں انہیں کھانے پینے، تعلیم اور صحت کی طرف اس لیے راغب کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے اور مضبوط بنیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی فرد جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اُسے اپنے بچپن کی خوبیاں یاد آنے لگتی ہیں، اور وہ ماضی کی اس بے فکری کو “سنہری دور” کے طور پر یاد کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات کا ایک دلچسپ پہلو ہے کہ ہم جس وقت میں موجود ہوتے ہیں، اس کے چیلنجز کی شدت کے باعث ماضی کو بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔

بچپن کے بعد لڑکپن آتا ہے، جہاں جسمانی تبدیلیاں نمایاں ہوتی ہیں اور شخصیت تشکیل پانا شروع کرتی ہے۔ اس عمر کو اکثر لوگ ناپختہ اور غیر متوازن گردانتے ہیں۔ اس کے بعد نوجوانی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، جو توانائی، ولولے اور جمالیاتی کشش سے بھرپور ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ دور کئی چیلنجز کا بھی حامل ہوتا ہے، جیسے مالی مشکلات، پیشہ ورانہ غیر یقینی، اور جذباتی ناپختگی۔

نوجوانی میں انسان خواب دیکھتا ہے، محبت کرتا ہے، لیکن اکثر اس کی یہ خواہشات نا تجربہ کاری یا معاشرتی دباؤ کے سبب مکمل نہیں ہو پاتیں۔ وقت کے ساتھ جب فرد روزگار حاصل کرتا ہے، شادی کرتا ہے اور بچوں کی پرورش میں مشغول ہو جاتا ہے تو اُس کی توجہ ذاتی جذبات سے ہٹ کر خاندانی ذمہ داریوں کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس مرحلے میں مالی اور جذباتی توازن کی جستجو زندگی کا مرکزی محور بن جاتی ہے۔

چالیس کی دہائی میں داخل ہونے والا فرد اگر شعوری اور عملی طور پر درست فیصلے کرے تو وہ زندگی کے ایک نسبتاً مستحکم دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے پر عموماً فرد کی پیشہ ورانہ حیثیت مستحکم ہو چکی ہوتی ہے، ذاتی گھر، سواری اور ایک بہتر معیارِ زندگی میسر آتا ہے۔ بچے بھی اس قدر بڑے ہو چکے ہوتے ہیں کہ اُن کی نگہداشت میں نسبتاً آسانی ہو جاتی ہے، جبکہ والدین ابھی مکمل طور پر ضعیف نہیں ہوتے۔ اس عمر کو بعض ماہرین “زندگی کی سمجھ داری کی عمر” قرار دیتے ہیں۔

اسی عمر میں بعض افراد ایک بار پھر رومانی جذبات کا تجربہ کرتے ہیں، مگر یہ جذبات جوانی کی رومانویت سے مختلف، زیادہ حقیقت پسند اور محتاط ہوتے ہیں۔ اس دور کے تعلقات اکثر شعور، تجربے اور فہم پر مبنی ہوتے ہیں، اور یوں یہ ایک “حساب کتاب والا عشق” بن جاتا ہے۔ اگرچہ بعض افراد اس رجحان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، لیکن یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ ہر دور میں قربت، توجہ اور جذباتی وابستگی کی خواہش برقرار رہتی ہے۔

جہاں بعض مرد اس عمر میں جذبات کی راہوں پر بہک سکتے ہیں، وہیں بہت سی خواتین بھی اس مرحلے پر اپنے رشتے کو تازہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لباس، طرزِ زندگی اور رویوں میں تبدیلی لا کر وہ شریکِ حیات کے ساتھ نئے سرے سے زندگی کا لطف اٹھاتی ہیں۔

اگر عمر کے تمام مراحل پر غور کیا جائے تو بلاشبہ چالیس کی دہائی کو ایک “متوازن دور” کہا جا سکتا ہے — جہاں فرد کے خیالات پختہ، مالی حالت بہتر، خاندان مستحکم، اور جسمانی و ذہنی توانائی کی کچھ رمق باقی ہوتی ہے۔

اس کے بعد بڑھاپے کا دور آتا ہے، جو یادوں، تجربوں اور ماضی کی کہانیوں سے عبارت ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر اکثر بزرگ اپنے وقت کو موجودہ دور سے بہتر سمجھتے ہیں۔ بچے اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور والدین اکثر خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ زندگی کی چہل پہل کم ہوتی ہے اور سکوت غالب آ جاتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos