امجد اسلام امجد سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر
تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی
پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی
یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے
سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
کسی کا اپنا محبت میں کچھ نہیں ہوتا
کہ مشترک ہیں یہاں سود بھی خسارے بھی
بگاڑ پر ہے جو تنقید سب بجا لیکن
تمہارے حصے کے جو کام تھے سنوارے بھی
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
پہ جیسے ریل میں دو اجنبی مسافر ہوں
سفر میں ساتھ رہے یوں تو ہم تمہارے بھی
یہی سہی تری مرضی سمجھ نہ پائے ہم
خدا گواہ کہ مبہم تھے کچھ اشارے بھی
یہی تو ایک حوالہ ہے میرے ہونے کا
یہی گراتی ہے مجھ کو یہی اتارے بھی
اسی زمین میں اک دن مجھے بھی سونا ہے
اسی زمیں کی امانت ہیں میرے پیارے بھی
وہ اب جو دیکھ کے پہچانتے نہیں امجدؔ
ہے کل کی بات یہ لگتے تھے کچھ ہمارے بھی