ایران کے ساتھ تجارت کے امکانات اور خطرات

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ یادداشتِ تفاہم اس امر کی علامت ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک خطے میں اقتصادی تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں، بالخصوص بارڈر ٹریڈ، توانائی کے تبادلے اور عوامی روابط کے میدان میں۔ تاہم، یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ایران عالمی سطح پر سخت امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، جن میں توانائی، بینکنگ اور تجارتی نظام شامل ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ: کیا پاکستان ان پابندیوں کو نظرانداز کر کے ایران سے تیل یا دیگر اشیاء کی تجارت کر سکتا ہے؟ اور اگر ہاں، تو اس کے امریکہ سے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

بین الاقوامی پابندیاں: قانونی اور عملی حقیقت

امریکہ کی ایران پر عائد پابندیاں بنیادی طور پر یک طرفہ ہیں، یعنی یہ صرف امریکہ کی طرف سے لاگو کی گئی ہیں، نہ کہ اقوام متحدہ یا کسی عالمی ادارے کی طرف سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان قانونی طور پر ان پابندیوں کا پابند نہیں ہے — بشرطیکہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔

لیکن بین الاقوامی مالیاتی نظام میں امریکی اثر و رسوخ اس قدر گہرا ہے کہ اکثر ممالک ان پابندیوں کی پیروی کرتے ہیں تاکہ خود کو ثانوی پابندیوں سے بچا سکیں۔

پاکستان کے لیے امکانات اور خدشات

ایران سے تیل یا گیس کی خریداری پاکستان کے لیے ایک معاشی نعمت بن سکتی ہے، خصوصاً جب مقامی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں کا دباؤ ہے۔ ایرانی تیل کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے اور زمینی راستے سے ترسیل ممکن ہے، جس سے لاگت بھی کم آتی ہے۔

پاکستان میں جاری توانائی بحران، مہنگی ایل این جی درآمدات اور بجلی کے شارٹ فال کی موجودگی میں ایران سے توانائی کی فراہمی (خصوصاً بلوچستان کے لیے) ایک فوری اور مؤثر حل فراہم کر سکتی ہے۔

اسی طرح، بارڈر مارکیٹس، تجارتی مراکز اور کراس بارڈر سرمایہ کاری سے نہ صرف سرحدی علاقوں میں خوشحالی آ سکتی ہے بلکہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی ذرائع کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔

امریکہ سے تعلقات پر ممکنہ اثرات

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک “مفاہمتی توازن” کی ضرورت ہے۔ ترکی، بھارت اور چین جیسے ممالک نے ایران سے محدود سطح پر تجارت کر کے بھی امریکہ سے تعلقات کو ایک حد تک برقرار رکھا ہے۔ پاکستان بھی اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے مخصوص نوعیت کی “انسانی بنیادوں پر تجارت” یا “مقامی بارٹر معاہدوں” کے تحت ایران سے تعلقات کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی میں چین کا توازن، افغانستان کی صورتحال اور خطے میں سیکیورٹی اہمیت رکھنے والے ممالک کی شمولیت پاکستان کو ایک اہم حیثیت دیتی ہے۔ اگر پاکستان شفاف، محدود اور بین الاقوامی قوانین کے اندر رہتے ہوئے ایران سے تجارت کرتا ہے، تو امریکہ کی جانب سے شدید ردعمل کا امکان کم ہے، خاص طور پر اگر پاکستان متبادل ذرائع سے امریکہ کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کر سکے۔

نتیجہ: ایک نپی تلی خارجہ پالیسی کی ضرورت

ایران سے تجارت اور تیل کی خریداری پاکستان کے قومی مفاد میں ہو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے ایک دانشمندانہ، محتاط اور سفارتی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ ایسی تجارتی سرگرمیوں پر توجہ دینی چاہیے جو امریکی پابندیوں سے متصادم نہ ہوں، بارٹر سسٹم یا کرنسیوں کی متبادل صورتوں پر غور کرنا چاہیے، اور امریکہ کے ساتھ سفارتی سطح پر مسلسل مشاورت اور وضاحت کا عمل جاری رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

یہی ایک ایسا راستہ ہے جو پاکستان کو معاشی فوائد بھی دے سکتا ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں استحکام بھی فراہم کر سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos