تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

خواجہ میر درد ؔکو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ ان کے بعض سادہ اشعار پر میرؔ کے اسلوب کا دھوکہ ضرور ہوتا ہے لیکن توجہ سے دیکھا جائے تو دونوں کا اسلوب یکسر جداگانہ ہے۔ درد کی شاعری میں غور و فکر کا عنصر نمایاں ہے جبکہ میرؔ فکر کو احساس کا تابع رکھتے ہیں البتہ عشق میں سپردگی اور گداز دونوں کے یہاں مشترک ہے اور دونوں آہستہ آہستہ سلگتے ہیں۔ دردؔ کے یہاں مجازی عشق بھی کم نہیں۔ جیتے جاگتے محبوب کی جھلکیاں جا بجا ان کے کلام میں مل جاتی ہیں۔

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر اُدھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے

آہ بس مت جی جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جدھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے

جوں شرر اے ہستیٔ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos