غزہ میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے قحط کے باضابطہ اعلان کے صرف ایک روز بعد ہی درجنوں فلسطینی بھوک مٹانے کے لیے خیراتی باورچی خانوں پر امڈ آئے۔ منظرناموں میں خواتین اور بچے ہاتھوں میں برتن اور بالٹیاں لیے قطاروں میں دکھائی دیے، جبکہ کچھ لوگ زمین پر گرے چاول کے دانے تک چننے پر مجبور تھے۔
58 سالہ یوسف حماد، جو بیت حانون سے بے گھر ہو چکے ہیں، نے اپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے کہا: “ہمارے پاس نہ گھر ہے، نہ کھانا، نہ آمدنی۔ خیراتی باورچی خانے ہماری واحد امید ہیں، لیکن یہ بھی ہماری بھوک نہیں مٹا پاتے۔” دیر البلح کی ایک فلسطینی خاتون، ام محمد، نے اقوام متحدہ کے قحط کے اعلان کو “انتہائی تاخیر سے” قرار دیا۔ ان کے بقول “بچے بھوک اور پانی کی کمی سے گر پڑتے ہیں اور ہوش میں آنے کے قابل نہیں رہتے۔”
اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ کے تقریباً پانچ لاکھ افراد اس وقت شدید قحط کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ ستمبر کے آخر تک یہ بحران دیر البلح اور خان یونس تک پھیل جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ریلیف ادارے کے سربراہ فلیپ لازارینی نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ “غزہ میں جان بوجھ کر پیدا کیے گئے قحط” کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا: “اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت حقیقت کا سامنا کرے۔”
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس رپورٹ کو “سراسر جھوٹ” قرار دیا۔ دریں اثنا، اسرائیلی بمباری نے غزہ کے کئی رہائشی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور ہزاروں خاندان محفوظ مقامات کی تلاش میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ “ہم سڑکوں پر جانوروں کی طرح سونے پر مجبور ہیں، کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہی۔”