مقدس مزارات اور درباروں میں مالی بدعنوانی کا انکشاف

[post-views]
[post-views]

نفیسہ عارف

پاکستان میں اولیاء کرام کے مزارات اور دربار صرف مذہبی عقیدت کے مراکز ہی نہیں بلکہ صدیوں پر محیط روحانی، ثقافتی اور سماجی تاریخ کے امین بھی ہیں۔ یہ مقدس مقامات عوام کو نہ صرف روحانی تسکین فراہم کرتے ہیں بلکہ لاکھوں افراد کے لیے امید، دعا اور قلبی وابستگی کا ذریعہ بھی ہیں۔ یہاں دی جانے والی نذرانے اور عطیات زائرین کا ایسا خالص عمل ہوتا ہے، جو اللہ کی رضا اور فلاحِ عامہ کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ یہی رقوم مزارات کی دیکھ بھال، زائرین کی سہولت، اور رفاہی منصوبوں کے لیے مخصوص کی جاتی ہیں۔ تاہم حالیہ انکشافات اس مقدس نظام پر ایک سیاہ دھبہ ہیں۔

مصدقہ رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تین سالہ دور میں پنجاب کے مختلف درباروں کے فنڈز میں تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کی مبینہ کرپشن کی گئی۔ اس میں صرف داتا دربار کے عطیات میں 86 کروڑ روپے کی مالی بدعنوانی رپورٹ ہوئی، جب کہ بابا فرید گنج شکرؒ اور دیگر اہم مزارات کے فنڈز میں بھی مالی بدعنوانی کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ یہ معاملہ نہ صرف مالی شفافیت کے شدید فقدان کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ایک گہرے اخلاقی بحران کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ جن مقدس مقامات کو عقیدت مند روحانی پناہ گاہیں سمجھتے ہیں، انہی کے فنڈز کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یہ فنڈز وہ امانتیں ہیں جو عوام اللہ کی رضا کے لیے وقف کرتے ہیں، اور اگر انہی کو بددیانتی سے استعمال کیا جائے تو یہ عمل نہ صرف قانونی اور اخلاقی خلاف ورزی ہے بلکہ دینی امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔

اس صورتحال میں فوری اور شفاف احتساب ناگزیر ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ اس سنگین مالی بدعنوانی کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائیں اور ذمہ دار عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ایک مؤثر نگرانی کا نظام بھی وضع کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ممکن ہو سکے۔

عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب مذہب، عقیدے اور روحانیت کے مقدس اداروں کو مالی و انتظامی لحاظ سے شفاف بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر یہ بداعتمادی نہ صرف نظام کو کھوکھلا کرے گی بلکہ عوامی و روحانی وابستگی کو بھی شدید زک پہنچائے گی۔

مزاراتِ اولیاء ہماری اجتماعی روحانی وراثت ہیں۔ ان کا تقدس صرف زبانی دعووں سے برقرار نہیں رہ سکتا، بلکہ اس کے لیے عملی، پائیدار اور دیانت دارانہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر ان مقامات پر بھی مالی بدعنوانی کو معمول بننے دیا گیا تو یہ نہ صرف روحانیت کے دائرے کو مجروح کرے گا، بلکہ ایک گہرے سماجی بحران کو جنم دے گا۔

اب وقت ہے کہ ریاست، عدلیہ، سول سوسائٹی اور عوام مل کر ان امانتوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں، تاکہ روحانیت کا چراغ روشن بھی رہے اور عوام کا اعتماد بھی قائم۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos