امریکہ نے عالمی ادارہ صحت کے اُس معاہدے کو باضابطہ طور پر مسترد کر دیا ہے جو مستقبل میں وبائی امراض سے نمٹنے کی عالمی تیاری کو بہتر بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ امریکی حکومت نے اس فیصلے کی وجہ قومی خودمختاری پر خدشات اور صحت کے ہنگامی حالات میں عالمی ادارہ صحت کے کردار کو قرار دیا ہے۔
جمعہ کے روز امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ صحت و انسانی خدمات نے اعلان کیا کہ انہوں نے باقاعدہ طور پر عالمی ادارہ صحت کو اس معاہدے سے متعلق امریکی انکار سے آگاہ کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ مئی میں جنیوا میں تین سالہ مذاکرات کے بعد قانونی طور پر منظور کیا گیا تھا۔
اس معاہدے کا مقصد مستقبل کی وباؤں کے دوران ادویات اور تشخیصی سہولیات تک دنیا بھر میں منصفانہ رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے تحت دوا ساز کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کا 20 فیصد حصہ عالمی ادارہ صحت کو فراہم کریں تاکہ کم آمدنی والے ممالک کو بھی بروقت طبی امداد مل سکے۔
تاہم، امریکہ نے ان مذاکرات سے اس وقت علیحدگی اختیار کر لی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کےعالمی ادارہ صحت سے انخلا کا عمل شروع کیا۔ چونکہ عالمی ادارہ صحت کا سب سے بڑا مالی معاون امریکہ ہے، اس لیے انخلا کے بعد امریکہ اس معاہدے کا پابند نہیں رہے گا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور صحت و انسانی خدمات کے وزیر رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے مشترکہ بیان میں کہا کہ معاہدہ عالمی ادارہ صحت کے اختیارات میں غیر ضروری اضافہ کرتا ہے اور اس میں کئی شقیں مبہم ہیں، جن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر فیصلے ہو سکتے ہیں نہ کہ مؤثر اور فوری اقدامات۔
کینیڈی، جو طویل عرصے سے ویکسین پر تنقید کرتے آئے ہیں، نے عالمی ادارہ صحت اسمبلی سے ویڈیو خطاب میں بھی اس معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ادارہ کووِڈ-19 سے کوئی سبق سیکھنے میں ناکام رہا ہے۔
اگرچہ امریکہ اس معاہدے کو اپنی خودمختاری کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ کسی بھی ملک کی قومی خودمختاری کو ختم نہیں کرتا، بلکہ واضح طور پر صحت سے متعلق پالیسیوں کا اختیار قومی حکومتوں کے پاس ہی رکھتا ہے۔