ارشد محمود اعوان
لاس اینجلس، جو امریکہ کے دولت مند ترین اور کثیرالثقافتی شہروں میں شمار ہوتا ہے، حالیہ دنوں میں ایسے مناظر کا مرکز بنا ہوا ہے جو زیادہ تر غیر مستحکم ریاستوں یا ترقی پذیر ممالک سے منسوب ہوتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن ممالک کو ’تھرڈ ورلڈ‘ قرار دیتے ہیں، اب انہی جیسے مناظر امریکہ کے اندر رونما ہو رہے ہیں، اور یہ نہ صرف ایک سیاسی بلکہ سماجی اور اخلاقی بحران کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
یہ کشیدگی صرف غیر قانونی امیگریشن کے خلاف اقدامات تک محدود نہیں بلکہ امریکہ میں جاری تہذیبی جنگوں کا مظہر ہے۔ ایک طرف وفاقی حکومت ہے جو ریپبلکن جماعت کے تحت سخت گیر پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، جبکہ دوسری طرف ریاست کیلیفورنیا کی ڈیموکریٹ حکومت ہے جو انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے اصولوں کو فوقیت دیتی ہے۔ گورنر گیون نیوسم کی جانب سے صدر ٹرمپ کو “آمر” قرار دینا اور بحران کو “مصنوعی” کہنا اس تقسیم کی شدت کو واضح کرتا ہے۔
وفاقی اداروں نے حالیہ کارروائیاں جمعے کے روز اُن علاقوں میں کیں جہاں تارکینِ وطن کی کثیر تعداد آباد ہے۔ اگرچہ ان چھاپوں کا جواز “غیر قانونی مہاجرین اور جرائم پیشہ افراد” کی گرفتاری بتایا گیا، لیکن مقامی شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا ماننا ہے کہ ہسپانوی نژاد کمیونٹی کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کے ردعمل میں مظاہرے شدت اختیار کر گئے اور حکومت نے نیشنل گارڈ اور میرینز کو طلب کر کے صورتِ حال کو عسکری انداز میں قابو پانے کی کوشش کی، جو ایک جمہوری ریاست کے لیے خطرناک نظیر ہے۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں امیگریشن کے خلاف سخت رویہ ایک مرکزی نکتہ تھا، اور یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں دیگر امریکی ریاستیں بھی اسی طرح کے حالات سے دوچار ہوں۔ یہ ایک وسیع تر عالمی رجحان کا حصہ ہے، جہاں یورپ اور شمالی امریکہ میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں مہاجر مخالف جذبات کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ اکثر یہ بیانیہ اس مفروضے پر مبنی ہوتا ہے کہ مہاجرین مقامی باشندوں کے روزگار، وسائل اور ثقافت کے لیے خطرہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک میں مقامی شہری وہ کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے جو مہاجرین کم اجرت پر خوشی سے انجام دیتے ہیں، مثلاً صفائی، تعمیرات، زراعت اور نگہداشتِ بزرگاں جیسے شعبے۔
ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے اور غیر قانونی امیگریشن کو روکے، مگر اس کے ساتھ انسانی وقار اور بنیادی حقوق کا تحفظ بھی لازم ہے۔ کسی مخصوص قوم یا نسل کو ہدف بنانا، عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنا اور سیاسی مخالفت کو غداری قرار دینا، نہ صرف ایک اخلاقی ناکامی ہے بلکہ جمہوری اقدار کے منافی بھی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک، جہاں ہر سال ہزاروں افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں، ان حالات سے سبق سیکھنا ناگزیر ہے۔ عالمی سطح پر امیگریشن کے لیے فضا سخت ہوتی جا رہی ہے۔ میزبان ممالک کے دروازے بند ہو رہے ہیں، نسل پرستی اور تعصب میں اضافہ ہو رہا ہے، اور قانونی ہجرت کے راستے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو داخلی سطح پر اقتصادی ترقی، روزگار کے مواقع اور انسانی وسائل کی بہتر منصوبہ بندی پر توجہ دینی ہوگی تاکہ بیرون ملک انحصار کم ہو۔
ساتھ ہی ساتھ، وزارتِ خارجہ اور سفارتی اداروں کو یہ ذمہ داری سونپی جانی چاہیے کہ وہ میزبان ممالک میں پاکستانی تارکینِ وطن کے حقوق کی حفاظت کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستانی عوام کو اس بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ حقائق کی روشنی میں بہتر فیصلے کر سکیں۔
آخر میں، لاس اینجلس میں پیش آنے والے واقعات نہ صرف امریکہ کے اندرونی تضادات کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک تنبیہ بھی ہیں کہ امیگریشن اب صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی چیلنج بھی بن چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا امیگریشن کو محض عددی یا قانونی مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے انسانی وقار اور سماجی انصاف کے تناظر میں دیکھے۔ بصورتِ دیگر، یہ تقسیم، بے چینی اور انتہا پسندی کو جنم دیتی رہے گی۔