Premium Content

سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے اپنے حلقے میں شکست کے نمایاں آثار

Print Friendly, PDF & Email

(ریپبلک پالیسی سروے ٹیم کا تجزیہ ضرور پڑھیں)

سردار عثمان بزدار (پاکستان تحریک انصاف) پی پی286، ڈیرہ غازی خان (دو) سے پنجاب اسمبلی کے 2018 ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

اُنہوں نے 27027ووٹ حاصل کیے جبکہ خواجہ نظام المحمود (آزاد) نے 18686ووٹ حاصل کیے۔ تیسرے اہم امید وار محمد اکرم ملغانی (آزاد)تھے جنہوں نے 16377ووٹ حاصل کیے۔

جبکہ2013ء میں اسی نشست سے جوکہ( پی پی241تھی ) خواجہ محمد نظام المحمود نے 27511 ووٹ لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے فتح حاصل کی جبکہ عثمان بزدار جوکہ مسلم لیگ (ن) سے الیکشن لڑ رہے تھے22590 ووٹ لے سکے۔

علاوہ ازیں محمد اکرم ملغانی نے بھی 16859ووٹ لیے۔ 2022ء کی حلقہ بندیوں کے باوجود بھی پی پی286 تقریباً 2018 ء والا ہی صوبائی حلقہ ہے۔

صوبائی حلقہ میں 4 بنیادی اُمیدواران ہیں جن میں خواجہ شیرازمحمود، خواجہ نظام المحمود، اکرم ملغانی اور عثمان بزدار شامل ہیں۔ حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ خواجہ برادران (پیری مریدی) کا ہے۔ جوکہ خواجہ شیراز اور خواجہ نظام میں تقسیم ہوتا ہے۔

بزدار قبیلے کا ووٹ عثمان بزدار کو ملتا ہے جبکہ ملغانی (بلوچ) قبیلے کا ووٹ اکرم ملغانی کوملتا ہے۔ نئی حلقہ بندی سے اکرم ملغانی کا کچھ ووٹ بینک دوسرے حلقے میں منتقل ہوا ہے۔

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

اُمیدواران کے علاوہ صوبائی حلقے میں صرف پاکستان تحریک انصاف اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ اگر حلقے کی یونین کونسلز کا جائزہ لیا جائے تو یوسی بارتھی سے عثمان بزدار کا تعلق ہے تاہم موجودہ صورتحال میں فاروق گل خانی(بزدار) کی مخالفت کی وجہ سے عثمان بزدار کو مشکلات کا سامنا ہے۔

یوسی فاضلہ میں بھی اسلم خان اور حیات بزدار کی مخالفت کی وجہ سے عثمان بزدار کو مسائل کا سامنا ہے۔

یوسی مکول میں بھی عثمان بزدار کی متوقع اکثریت مخالفین کی وجہ سے خطرے میں ہے۔

جبکہ خواجہ شیراز اور اکرم ملغانی کا ووٹ بینک بھی یوسی مکول میں موجود ہے۔ یوسی بنڈی میں خواجہ شیراز، خواجہ نظام اور اکرم ملغانی کا ووٹ بینک موجود ہے۔

یوسی ھیرو میں اکرم ملغانی اور خواجہ شیراز کا ووٹ بینک موجود ہے۔ منگروٹھہ میں خواجہ شیراز، عثمان بزدار، خواجہ نظام اور ملغانی کا ووٹ بینک موجود ہے۔

تونسہ شہر حلقے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تونسہ شہر سے 25سے30ہزار ووٹ پڑنے کی توقع ہے۔ تونسہ شہر میں خواجہ نظام المحمود سب سے زیادہ مضبوط ہے۔

اُس کے بعد خواجہ شیراز کا ووٹ بینک ہے۔ عثمان بزدار کاووٹ انتہائی کم ہے۔ تاہم تونسہ شہر میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔

یوسی سورہ میں خواجہ شیراز اور خواجہ نظام کا ووٹ بینک موجود ہے۔ یوسی ڈوھنہ میں خواجہ شیراز اور خواجہ نظام کا ووٹ بینک موجود ہے۔ یوسی ناڑی میں خواجہ دائود کی سپورٹ کی وجہ سے عثمان بزدار کی پوزیشن مضبوط ہے۔

تاہم خواجہ شیراز اور خواجہ نظام کا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔ صوبائی حلقے کی تمام یوسی میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک موجود ہے۔ تاہم قبائلی بلوچ سرداروں اور خواجہ برادران کے ووٹوں کی اکثریت ہے۔

حلقے میں خواجہ نظام اور خواجہ شیراز کے ووٹ عثمان بزدار کے ووٹوں سے زیادہ ہیں۔ جبکہ اکرم ملغانی کے ووٹوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف کا بھی اچھا خاصا ووٹ بینک حلقے میں موجود ہے۔ خواجہ شیراز جوکہ تحریک انصاف کے نیشنل اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔

اُنہوں نے عثمان بزدار کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کررکھا ہے۔

جبکہ نظام المحمود پاکستان مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اور اُنہیں اکرم ملغانی، میربادشاہ خان قیصرانی اور دوسرے عثمان بزدار مخالف دھڑوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے یہ حلقہ انتہائی دلچسپی کا حامل ہے۔

اگر خواجہ شیراز اور عثمان بزدار کے درمیان سیاسی صلح نہ ہوئی تو عثمان بزدار الیکشن ہارسکتے ہیں۔ اگر خواجہ شیراز تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں تو آسانی سے جیت جائیں گے۔

عثمان بزدار قبیلے اور دوسرے بلوچ قبیلوں میں خواجہ شیراز کے بہت سے مریدین ہیں۔ اگر خواجہ شیراز الیکشن میں حصہ نہیں لیتے اور خواجہ نظام کی سپورٹ کرتے ہیں تو عثمان بزدار اورخواجہ نظام کا مقابلہ سخت ہوگا۔ اور اس کی بنیادی وجہ عثمان بزدار کو تحریک انصاف کا ووٹ ملنا ہے۔

اگر خواجہ شیراز، خواجہ نظام اور عثمان بزدار تینوں الیکشن لڑتے ہیں تو مقابلہ انتہائی سخت ہوگا۔ حلقے کی سیاست میں اکرم ملغانی کے فیکٹر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

روایتی طور پر حلقے میں قبائل ،دھڑے اور خواجہ برادران ہی جیتتے چلے آئے ہیں۔ تاہم 2023ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کا فیکٹر بھی نمایاں ہے۔

عثمان بزدار کی جیت اس پر منحصر ہے کہ تحریکِ انصاف کیسے خواجہ شیراز اور دوسرے دھڑوں کو اکٹھا کرتی ہے۔ تاہم ان سب کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی لہر اس پوزیشن میں ہے کہ سیاسی دھڑے بندیوں، برادریوں اور دوسرے عناصر کو ملیامیٹ کر سکتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos